:سوال
لوگوں میں رسم ہے کہ میت کو دفن کر کے اس کے مکان میں آتے ہیں اور کہتے ہیں فاتحہ پڑھ لو، پھر کچھ پڑھتے ہیں اور ہاتھ اٹھاتے ہیں، یہ فعل کیسا ہے؟
:جواب
اصل اس فعل میں کوئی حرج نہیں کہ ایصال ثواب سے اموات کی اعانت اور ان کے لئے دعا مغفرت اور پسماندوں ( عزیز و اقرباء) کو تسکین و تعزیت سب باتیں محمود وروا ( شرعا پسندیدہ اور جائز ہیں ) ۔ ابن ماجہ اوربیہقی نےبسند حسن روایت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ آلہ سلم فرماتے ہیں جو مومن بھی کسی مصیبت پر اپنے بھائی کی تعزیت کرے خدا تعالی اسے قیامت کے دن عزت و کرامت کا لباس پہنائے گا۔
( سنن ابن ماجه ص 116 انچ ایم سعید کمپنی، کراچی )
مزید پڑھیں:مردہ پیدا ہونے والے بچے کو کس قبرستان میں دفن کیا جائے؟
رہا تعزیت کے وقت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا ، تو ظاہر یہ ہے کہ جائز ہے اس لئے کہ حدیث شریف کے اندر دعا میں ہاتھ اٹھانا مطلقا ثابت ہے تو اس وقت بھی مضائقہ نہیں مگر خاص وقت تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانا حدیث میں منقول نہیں ۔
دلائل دینے کے بعد ایک مقام پر فرماتے ہیں) جب تعزیت وایصال ثواب و دعا محمود ٹھہری اور افضل یہ قرار پایا کہ دفن کے بعد ہو اور پہلے ہی دن ہو اور قبر سے پلٹ کر ہو، اور اس کیلئے مکان میت پر بھی جانا جائز ہوا، تو اسی وقت جا کر ادائے تعزیت میں کیا مضائقہ ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 394 تا 398