آذان کے بعد صلوۃ و سلام کا کیا حکم ہے؟
:سوال
صلاة جو بعد اذان بلفظ الصلاة والسلام عليك یارسول اللہ پڑھی جاتی ہے، زید کہتا ہے کہ یہ فعل نہ فرض ہے نہ واجب نہ مستحب ، بلکہ قرآن شریف اور حدیث شریف کے باہر ہے اور شارع اسلام کے خلاف ہے۔ زید کے پیچھےنماز جائز ہے یا نہیں ؟ اس کو امام بنانا چاہئے یا نہیں؟
:جواب
مخالف جھوٹا ہے اور شریعت مطہرہ پر افترا کرتا ہے ثبوت دے شرع مطہر نے اسے کہاں منع فرمایا ہے کہ خلاف شرع کہتا ہے
ہاں وہ فردا مستحب ہے اور اصلا فرد فرض ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے
ان الله وملئكته يصلون على النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسلموا تسليما )
بیشک اللہ اور اس کے سب فرشتے درود بھیجتے ہیں اس نبی پر اےایمان والو دررود بھیجوان پر اور خوب سلام عرض کرو (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )
رب عزوجل کا حکم مطلق ہے اس میں کوئی ارشاد فرمادیا ہے کہ مگر از ان کے بعد نہ بھیجو، جب پڑھا جائے گا اسی حکم الہی کا امتثال ( اتباع ) ہوگا فالہذا ہر بار درود پڑھنے میں فرض کا ثواب ملتا ہے کہ سب اسی مطلق فرض کے تحت میں داخل ہے توجتنا بھی پڑھیں گے فرض ہی میں شامل ہو گا
نظیر اس کی تلاوت قرآن کریم ہے کہ ویسے تو فرض ایک ہی آیت ہے اور اگر ایک رکعت میں سارا قرآن عظیم تلاوت کرے تو سب فرض ہی میں داخل ہوگا اور فرض ہی کا ثواب ملے گا سب
﴿فَاقْرَ، وُا مَا تَیسر مِنَ الْقُرآن )
( پس پڑھ قرآن سے جو تمہیں آسان ہے )
کے اطلاق میں ہے آج کل ایسا انکار کرنے والے کوئی نہیں مگر وہابیہ اور وہابیہ کے پیچھے نماز باطل محض ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 422

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 193
مزید پڑھیں:اگر وہابی آذان دے تو اسکا جواب دینا چاہئے یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top