:سوال
زید نے اپنی کتاب میں یہ عبارت لکھی ہے کہ چار مصلے جو کہ مکہ معظمہ میں مقرر کئے ہیں، یہ غلط ہے کہ تکرار جماعت و افتراق اس سے لازم آ گیا کہ ایک جماعت ہونے میں دوسرے مذہب کی جماعت بیٹھی رہتی ہے اور شریک جماعت نہیں ہوتی اور مرتکب حرام ہوتے ہیں، زید کا یہ قول کیسا ہے؟
:جواب
حقیقت امر یہ ہے کہ حرمین طیبین زاد ہما اللہ شرفا و تعظیماً میں چاروں مذاہب حقہ اہلسنت حفظہم اللہ تعالی کے لوگ مجتمع ہیں اور اُن میں با ہم طہارت و نماز کے مسائل میں اختلاف رحمت ہے، ایک بات ایک مذہب میں واجب دوسرے میں ممنوع ، ایک میں مستحب دوسرے میں مکروہ، ایک کے نزدیک ایک امر ناقص طہارت ( طہارت کو توڑنے والا ) دوسرے کے نزدیک نہیں ، ایک کے یہاں کسی صورت میں وضو تمام دوسرے کے یہاں نہیں۔ تو جب امام کسی مذہب کا ہو اگر اس نے دوسرے مذہب کے فرائض طہارت وصلاۃ کی رعایت اور ان کے نواقض و مفسدات سے مجانبت نہ کی جب تو اس مذہب والوں کی نماز اس کے پیچھے باطل و فاسد ہی ہوگی اور اگر مراعات و مجانبت مشکوک ہو تو مکروہ اور تلفیق مذاہب با جماع جمہور ائمہ حرام و باطل اور بحال رعایت بھی ہر مذہب کے مکروہات سے بچنا۔ یقینا محال اور بعض امور ایک مذہب میں سنت اور دوسرے میں مکروہ ہیں اگر بجالایا تو مذ ہب ثانی اور تارک ہوا تو مذہب اول پر کراہت ، ولہذا غایت امکان قدر فرائض و مفسدات تک ہے۔
محققین نے تصریح فرمائی کہ بہر حال موافق المذہب کی اقتداء اکمل وافضل، تو انتظار موافق کے لئے نوافل یاز کروغیر ہما میں مشغول رہنا جماعت سے اعراض نہیں بلکہ اکمل واعلیٰ کی طلب ہے اور یہ تفریق جماعت نہیں بلکہ تکمیل و تحسین ہے خصوصاً ان دو مسجد مبارک میں کہ مسجد محلہ نہیں ہر جماعت جماعت اولی ہے اس لئے آٹھ سو برس یا زائد سے مکہ معظمہ ومدینہ طبیبہ و بیت المقدس وجده و مصر و شام و غیر ہا بلا د اسلام میں عامہ مسلمین کا عمل اس پر جاری و ساری رہا اور بعض کا انکار شاذ ومہجور قرار پایا تو بعد وضوح حق ( حق واضح ہونے کے بعد ) واستقرار امر اسے زبون و حرام و بدعت کہنا باطل و جہل و سفاہت ہے، چار مصلے ہونا اسی طریقہ انیقہ سے عبارت جسے علمائے مذاہب نے بنظر مصالح جلیلہ مذکور و پسند و مقرر رکھا باقی کسی مکان یا علامت کا بننا کہ یہ بھی صد ہا سال سے معہود و مقبول ہے نہ اس کے لئے ضرور نہ ان میں مخل بلکہ وہ بھی منافع پر مشتمل ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 226