:سوال
مسجد میں نقش و نگار جائز ہے یا نہیں؟
:جواب
مساجد میں زینت ظاہری زمانہ سلف صالحین میں فضول و نا پسند تھی کہ اُن کے قلوب تعظیم شعائر اللہ سے مملو (بھرے ہوئے ) تھے والہذا حدیث میں مباراة فی المساجد کو اشراط ساعت ( قیامت کی نشانیوں ) سے شمار فرمایا ، اور عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیم نے فرمایا ( التزخر منها كما زخرفت اليهود والنصارنی) ترجمہ: تم مساجد کواسی طرح مزین کرو گے جس طرح یہود و نصاری نے مزین کیں۔
حیح البخاری، ج 1، میں 64، قدیمی کتب خانہ کراچی)
مزید پڑھیں:منبر کے قریب دیوار پر عربی مناجات لکھ کر نصب کرنا کیسا ہے؟
تبدل زمان سے علماء نے تربیین مساجد کی اجازت فرمائی کہ اب تعظیم ظاہر(ظاہری عظمت) مورث عظمت فی ۔ العيون ووقعت فی القلوب ( آنکھوں میں عظمت اور دل میں وقعت پیدا ہونے کا سبب ) ہوتی ہے فكان كتحلية المصحف فيه من تعظیمہ ( یہ ایسے ہی ہے جیسے تعظیم کی خاطر قرآن حکیم کو طلا کی صورت میں لکھا جائے )۔ مگر اب بھی دیوار قبلہ عموماً اور محراب کو خصوصاً شاغلات قلوب سے بچانے کا حکم ہے بلکہ اولی یہ ہے کہ دیوار یمین و شمال (دائیں بائیں کی دیوار ) بھی ملہیات سے خالی رہے کہ اُس کے پاس جو مصلی ( نمازی) ہو اس کی نظر کو پریشان نہ کرے۔
ہاں گنبدوں، میناروں ، سقف (چھت) اور دیواروں کی سطح کہ مصلیوں (نمازیوں) کے پس پشت رہے گی ان میں مضائقہ نہیں اگر چہ سونے کے پانی سے نقش و نگار ہوں بشرطیکہ اپنے مال حلال سے ہوں مسجد کا مال اُس میں صرف نہ کیا جائے، مگر جبکہ اصل بانی مسجد نے نقش و نگار کئے ہوں یا واقف نے اس کی اجازت دی ہو یا مال مسجد کا فاضل بچا ہو اور اگر صرف نہ کیا جائے تو ظالموں کے خورد برد میں جائے گا۔پھر جہاں جہاں نقش و نگار اپنے مال سے کر سکتا ہے اس میں بھی دقائق نقوش سے تکلف مکروہ ہے سادگی ومیانہ روی کا پہلو ملحوظ رہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 105