:سوال
سادات کو زکوۃ نہیں دے سکتے تو پھر محتاج سادات کا کیا بنے گا؟
:جواب
رہا یہ کہ پھر اس زمانہ پر آشوب میں حضرات سادات کرام کی موسلات (مدد) کیونکر ہو، اقول ( میں کہتا ہوں ) بڑے مال والے اگر اپنے خالص مالوں سے بطور ہدیہ ان حضرات علیہ ( بلند مرتبہ حضرات) کی خدمت نہ کریں تو ان کی بے سعادتی ہے، وہ وقت یاد کریں جب ان حضرات کے جِدا کرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سوا ظاہری آنکھوں کو بھی کوئی ملجاوما وانہ ملے گا، کیا پسند نہیں آتا کہ وہ مال جو انھیں کے صدقے میں انھیں کی سرکار سے عطا ہوا، جسے عنقریب چھوڑ کر پھر ویسے ہی خالی ہاتھ زیر زمین جانے والے ہیں، ان کی خوشنودی کے لیے ان کے پاک مبارک بیٹوں پر اُس کا ایک حصہ صرف کیا کریں کہ اس سخت حاجت کے دن اُس جواد کریم رؤف رحیم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کے بھاری انعاموں عظیم اکراموں سے مشرف ہوں۔ ابن عساکر امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
( من صنع الى اهل بیتی يداً كافاته عليها يوم القيمة)
ترجمہ: جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں روز قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا۔
(کنز العمال ، ج 12، ص 95 ، موسسة الرسالة ، بیروت )
مزید پڑھیں:سادات پر زکوۃ حرام ہونے کی وجہ کیا ہے؟
خطیب بغدادی امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
( من صنع صنيعة الى احد من خلف عبد المطلب في الدنيا فعلى مكافاته اذا لقینی)
ترجمہ: جو شخص اولاد عبدالمطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روز قیامت مجھ سے ملے گا۔ اللہ اکبر اللہ اکبر ! قیامت کا دن، وہ قیامت کا دن، وہ سخت ضرورت سخت حاجت کا دن، اور ہم جیسے محتاج ، اور صلہ عطا فرمانے کومحمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سا صاحب التاج ، خدا جانے کیا کچھ دیں اور کیسا کچھ نہال فرما دیں، ایک نگاہ لطف اُن کی جملہ مہمات دو جہاں کو بس ہے، بلکہ خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلیٰ و انفس ہے، جس کی طرف کلمہ کریمہ اذالقینی ( جب روز قیامت مجھ سے ملے گا) اشارہ فرماتا ہے، بلفظ اذا تعبیر فرمانا بحمد اللہ بروز قیامت وعده وصال و دیدار محبوب ذی الجلال کا مژدہ سناتا ہے۔ مسلمانو! اور کیا درکار ہے دوڑو اور اس دولت و سعادت کولو باللہ التوفیق ۔
اور متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں تو دیکھتے تو محمد اللہ وہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوۃ کی زکوۃ ادا ہوا اور خدمت سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرف زکوٰۃ معتمد علیہ ( جس پر اعتماد ہو اس) کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے، مال زکوة سے کچھ روپے بہ نیت زکوۃ دے کر مالک کر دے، پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سید کی نذر کر دو، اس میں دونوں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوۃ تو اس فقیر کو گئی اور یہ جو سید نے پایا نذرانہ تھا ، اس کا فرض ادا ہو گیا اور خدمت سید کا کامل ثواب اسے اور فقیروں دونوں کو ملا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 105،106