:سوال
ایک شخص امام مسجد ہے، سب لوگ روزہ اُس کی اذان سے افطار کرتے ہیں اور وہ دیر سے افطار کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ کئی مرتبہ آزمایا گیا ہے کہ تارا نکل آیا اس کوتا را دکھا بھی دیا گیا تو اس پر بھی اس نے کہا کہ ابھی دو منٹ کی دیر ہے تو اس حالت میں کچھ روزہ میں نقص تو واقع نہیں ہوتا ہے؟
: جواب
جب آفتاب تمام و کمال ڈوبنے پر یقین ہو جائے فورا روزہ کی افطار سنت ہے۔۔۔ مگر اتنی جلدی جائز نہیں کہ غروب مشکوک ہو اور افطار کرے یا سحری میں اتنی دیر لگائے کہ صبح کا شک پڑ جائے۔
اور تارے کی سند نہیں بعض تارے دن سے چمک آتے ہیں ہاں ، ستاروں کے سوا جو کواکب ہیں وہ اکثر ہمارے بلد میں غروب آفتاب کے بعد چمکتے ہیں اگر ان ستاروں میں سے کوئی ستارہ چمک آتا ہے اور پھر وہ افطار نہیں کر دیتا اور دو منٹ کی دیر بتاتا ہے تو یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، اور بہت محرومی و بے برکتی ہے، اُسے تو بہ کرنی چاہئے واللہ تعالیٰ اعلم اس صورت میں مسلمان اس پر نہ رہیں جب غروب پر یقین ہو جائے افطار کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 626