سوال
بذریعہ ٹیلیفون رمضان یا عید کے چاند دیکھنے کی خبر رو برو آمنے سامنے ایک جگہ کا مسلمان دوسرے کو خبر دے کہ میں نے چاند دیکھا اور دوسری جگہ والا بھی مسلمان ہو اور اس کی آواز پہچانتا ہو کہ فلاں شخص یہ خبر دے رہا ہے تو اس کی آواز پہچان کر اس کے قول پر عمل کیا جائیگا یا نہیں؟
جواب
ٹیلی فون دینے والا اگر سلنے والے کے پیش نظر نہ ہوتو امور شرعیہ میں اس کا کچھ اعتبار ہیں اگر چہ آواز پہچانی جائے کہ آواز مشابہ آواز ہوتی ہے، اگر وہ کوئی شہادت دے معتبر نہ ہوگی، اور اگر کسی بات کا اقرار کرے سننے والے کو اس پر گواہی دینے کی اجازت نہیں۔
ہاں اگر وہ اس کے پیش نظر ہے جسے دو بدو آمنے سامنے سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی اس کی دونوں آنکھیں اس کی دونوں کے سامنے ہوں ، ایک دوسرے کو دیکھ رہا ہو، اور ٹیلی فون کا واسطہ صرف بوجہ آسمانی آواز رسانی کے لیے ہو کہ اتنی دور سے آواز پہنچنا دشوار تھا، تو اس صورت میں اس کی بات جس حد تک شرعا معتبر ہوتی اب بھی معتبر ہوگی، مثلاً خود اپنی رؤیت کی شہادت ادا کرے تو مانی جائے گی اگر وہ مقبول الشہادۃ ہے لیکن اتنی بات کہ فلاں جگہ رؤیت ہوئی اگر چہ متصل آکر ادا کرے جب بھی معتبر نہیں کہ یہ محض حکایت ہے نہ کہ شہادت ، اور یہ کہ فلاں نے مجھ سے کہا کہ فلاں جگہ ہوئی، اور زیادہ مہمل کہ حکایت در حکایت ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 369