:سوال
کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ حدیث ضعیف احکام میں معتبر ہو؟
:جواب
(حدیث ضعیف کی قبولیت کا کچھ فضائل اعمال ہی میں انحصار نہیں بلکہ عموماً جہاں اس پر عمل میں زنگ احتیاط ونفع بے ضرر کی صورت نظر آئے گی بلا شبہ قبول کی جائے گی جانب فعل میں اگر اس کا ورود استحباب کی راہ بتائے گا جانب ترک میں تنزع ( بچنے ) وتو رع ( تقوی) کی طرف بلائے گا کہ
آخر مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد
فرمایا کیف وقد قیل (کیونکر نہ مانے گا حالانکہ کہا تو گیا ) رسول الله صل الله تعالى عليہ وسلم فرماتے ہیں ” دع ما يربك الى ما يريبك ” جس میں شیبہ پڑتا ہو وہ کام چھوڑ دے اور ایسے کی طرف آجس میں کوئی دغدغہ نہیں۔
ظاہر ہے کہ حدیث ضعیف اگر مورث ظن نہ ہو مورث شبہ سے تو کم نہیں تو محل احتیاط میں اس کا قبول عین مراد شار را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مطابق ہے، احادیث اس باب میں بکثرت ہیں ،
ازاں جملہ حدیث اجل و اعظم کے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی عليه وسلم
من اتقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع في الشهبات وقع في الحرام كالراعي حول ى يوشك ان ترتع فيه الأوان لكل ملك حمى الاوان حمى الله محاورمہ “
جو شبہات سے بچے اُس نے اپنے دین و آبرو کی حفاظت کر لی اور جو شبہات میں پڑے حرام میں پڑ جائے گا جیسے رمنے ( چراگاہ) کے گرد چرانے والا نزدیک ہے کہ رمنے کے اندر چرائے سن لو ہر پادشاہ کا ایک رمنا ہوتا ہے سن لو اللہ عزوجل کار مناوہ چیزیں ہیں جو اس نے حرام فرمائیں۔امام ابن حجر مکی نے فتح المبین میں ان دونوں حدیثوں کی نسبت فرمايا
أورجوعهما الی شيء واحد وهو النهى التنزيهي عن الوقوع في الشهبات
یعنی حاصل مطلب ان دونوں حدیثوں کا یہ ہے کہ شبہ کی میں پڑ نا خلاف اولی ہے جس کا مرجع کراہت تنزیہ۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے
ان یک كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ إِنْ يُكَ صَادِقًا يُصِبَكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ )
اگروه جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہے اور اگر سچا ہوا تو تمہیں پہنچ جائے گی کچھ نہ کچھ وہ مصیبت جس کا وہ تمہیں وعدہ دیتا ہے
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 494