:سوال
کیا اسلاف میں سے کسی کا یہ مذہب ہے کہ قصدا نماز ترک کرنے والا کافر ہے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف اس بارے میں کیا ہے اور کوئی حنفی اس مسئلہ کو ظنی سمجھے اور قصدانماز ترک کرنے والے کو کافر اعتقاد کرے اس کے لیے کیا حکم ہے؟
:جواب
بلاشبہ صد ہا صحابہ کرام و تابعین عظام و مجتهدین اعلام و ائمه اسلام علیہم الرضوان کا یہی مذہب ہے کہ قصدا تارک صلاۃ کا فر ہے اور یہی متعدد صحیح حدیثوں میں منصوص اور خود قرآن کریم سے مستفاد
واقِيمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوامِنَ الْمُشْرِكِينَ
نماز قائم کرو اور کافروں سے نہ ہو جاؤ۔
زمانہ سلف صالح خصوصاً صدر اول کے مناسب یہی حکم تھا اُس زمانہ میں ترک نماز علامت کفر تھا کہ ( یہ فعل ) واقع نہ ہوتا تھا مگر کافر سے، جیسے اب زنار باندھنا یا قشقہ لگا نا علامت کفر ہے۔ جب وہ زمانہ خیر گزر گیا اور لوگوں میں تنہاون آیا ( سستی آئی ) وہ علامت ہونا جاتارہا اور اصل حکم نے عود کیا کہ ترک نماز فی نفسہ کفر نہیں جب تک اُسے ہلکا یا حلال نہ جانے یا فرضیت نماز سےمنکر نہ ہو، یہی مذہب سید نا امام اعظم رضی اللہ تعالی کا ہے۔
حنفی کہ ظنی طور پر اس کے خلاف کا معتقد ہو خاطی ضرور ہے کہ اب یہ حکم خلاف تحقیق و نا منصور ہے مگر وہ اس کے سبب نہ معاذ اللہ گمراہ ٹھرے گا نہ حنفیت سے خارج کہ مسئلہ فقہی نہیں اور اکا بر صحابہ وائمہ کے موافق ہے اور اگر اعتقاد تکفیر رکھتا تو اس سے باز آئے قول صحیح امام اعظم اختیار کرے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 119