:سوال
نماز غوثیہ کا طریقہ مکمل اداب کے ساتھ ارشاد فرمادیں۔
:جواب
جس شخص کو کوئی حاجت در پیش ہو خواه و ہ دینی ہو یاد نیوی ،تو وہ مغرب کی نماز کے بعد سنتوں کے ساتھ دو رکعت صلوۃ الاسرار( نماز غوثیہ ) کی نیت سے اللہ تعالی کی قربت اور حضور غوث اعظم کی روح کو ہدیہ کے لئے پڑھے، اور اگر اس کے لئے نیا وضو کرے تو یہ نور ہوگا کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نابینا کو یہ فرمایا تھا ،ور نہ نیا وضو ضروری نہیں ۔ مجھے تو یہ پسند ہے کہ صلوۃ الاسرار پڑھنے سے پہلے کوئی صدقہ کرے کیونکہ یہ عمل کامیابی جلدی لاتا ہے اور مصیبتوں کے دروازوں کو خوب بند کرتا ہے جبکہ حضور علیہ الصلوۃ و اسلام سے مناجات کیلئے پہلے صدقہ دینے کو اللہ تعالی نے حکم ،دیا، تو اللہ تعالی سے مناجات میں اور زیادہ بہتر ہے باوجود یکہ اس نماز میں حضور علیہ الصلوة والسلام سے بھی مناجات موجود ہے، اگر چہ اس صدقہ کا وجوب منسوخ ہو چکا ہے جس میں اُمت کی آسانی ہے مگر استحباب کے طور پر جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔
اس نماز میں فاتحہ کے بعد کوئی آسان سورت پڑھے بہتر ہے کہ سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھے تو بہت اچھا ہے، نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اس کی شان کے مطابق بجالائے اور اس میں بہتر وہ الفاظ ہیں جو حضور علیہ الصلوۃو السلام نے بطور حمد و ثنا پڑھے ہیں کیونکہ حضور علیہ السلام سے بڑھ کر بہتر حمد اور اچھی ثنا کوئی نہیں کر سکتا ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان کردہ بہترین محامد میں ایک یہ ہے: اللهم ربنا لك الحمد كثيرا طيباً مبر كافيه كما تحب ربنا و ترضى ملأ السموات وملا الارض ملأ ما شئت من شتى بعد ، ترجمہ: اے اللہ! ہمارے رب ! تیرے لئے کثیر ، طیب ، مبارک حمد جیسے تجھے پسند ہے اور تو راضی ہے، زمینیں اور آسمان اور ہر وہ چیز بھر کر جس کو تو چاہے ۔
مزید پڑھیں:حضرت عتبہ بن غزوان کا تقوی اور عدالت
( یہاں امام اہلسنت نے حمد کے اور بھی طریقے لکھے ہیں لکھ کر ارشاد فرماتے ہیں) اور اگر کسی مذکورہ محامد میں سے کوئی حمد یاد نہ ہو تو تین بار الحمد للہ پڑھ لے یا سورہ فاتحہ یا آیتہ الکرسی حمد وثنا کی نیت سے پڑھے، ان سے بہتر ثناء نہ پاؤ گے۔ اور پھر آخر میں نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود و سلام گیارہ مرتبہ پڑھے کیونکہ درود شریف کے بغیر کوئی دعا قبول نہیں ہوتی اور سلام کا بھی حکم ہے تا کہ دونوں کی فضیلت ہو جائے ، اور بعض علماء نے دونوں میں سے ایک پر اکتفاء مکر وہ قرار دیا ہے اس لئے دونوں کو ملا کر پڑھنے سے اس خلاف سے بچے گا، پھر مجھ بندہ کو یہاں درود غوثیہ جو آپ سے مروی ہے پسندیدہ ہے اور وہ یہ اللهم صل على (سيدنا ومولنا) محمد معدن الجود والكرم واله و سلم ۔ ترجمہ: اے اللہ ہمارے آقا و مولی محمد جو دو کرم کی کان پر رحمت نازل فرما اور آپ کی آل پر ، اور سلامتی نازل فرما۔
جس کو یہ بندہ یوں پڑھتا ہے : اللهم صل على سيدنا ومولنا محمد معدن الجود والكرم واله الكرام وابنه الكريم وامته الكريمة يا اكرم الاكرمين وبارك وسلم ” ترجمہ: اے اللہ ! ہمارے آقا و مولی محمد جو دو کرم کی کان پر اور آپ کی برگزیدہ آل اور کریم بیٹے اور برگزیده امت پر صلوہ و سلام فرما، اے برگزیدوں کے برگزیدہ۔اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف دلی توجہ کر کے گیارہ مرتبہ یوں پڑھے: بارسول الله يانبي الله اغثني وأمددني في قضاء حاجتی یا قاضی الحاجات ، ترجمہ: یا رسول اللہ یا نی اللہ ! میری مدد کرو، اور اے حاجات پوری کرنے والے!میری حاجت کے پورا ہونے میں مدد فرمائیے۔ پھر عراق کی طرف قدم بڑھائے اور ہمارے ہاں عراق شمال مغرب میں ہے یہ میرے آقا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیان کیا ہے اور یہی مدینہ منورہ اور کربلا معلیٰ کی جہت ہے۔
بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم عادت کے مطابق درمیانے قدم چلے کیونکہ کلام سے یہی سمجھا جارہا ہے اور بعض عوام کی طرح نہ کرے کہ وہ قدم چلنے کی بجائے ہر مرتبہ صرف تین یا چار انگشت آگے بڑھتے ہیں حالانکہ یہ قدم کا فاصلہ نہیں کہلا تا جبکہ ہمیں گیارہ قدم کے بارے میں حکم ہے اس لئے بغیر ضرورت اور بلا عذر اس حکم سے عدول نہیں کرنا چاہئے ، اور یہ عدول غلط ہے، ہاں اگر عذر ہومثلا جگہ تک ہو اور پورا قدم چلنے کی گنجائش نہ ہواور کھلی جگہ نہ ملے تو پھر حسب گنجائش قدم کا فاصلہ بنائے۔ اور اس سے بڑھ کر قابل اعتراض وہ صورت ہے جو میں نے بعض جہال کو کرتے دیکھا کہ وہ دورکعت پڑھتے ہوئے دوسری رکعت کی قرآت کے آخر میں نماز میں ہی عراق کی طرف منہ پھیر کر چلتے ہیں
اور گیارہ قدموں کے بعد پھر واپس پہلی جگہ پر لوٹ کر قبلہ رو ہو جاتے ہیں اور پھر نماز کو مکمل کرتے ہیں، ان غریبوں کو یہ معلوم نہیں کہ یہ طریقہ مرویہ کے خلاف بھی ہے اور اس سے نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے، حالانکہ عبادت کو شروع کر کے توڑنا حرام ہے، چونکہ نفل ہیں اور نفل شروع کرنے سے لازم ہو جاتے ہیں اس لئے ان پر دورکعتوں کی قضا لازم ہے، جبکہ اسے مسئلہ معلوم ہی نہیں تو قضا کیا کرے گا لہذا اس کو دو ہرا گناہ ہے، ایسے ہی شخص کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”المتعبد بغير فقه كالحمار في الطاحونة ”ترجمہ: بغير علم عبادت کرنے والا اس گدھے کی طرح ہے جو آنے کی چکی میں جتا ہو۔
مزید پڑھیں:کیا قضاء نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں؟
( حلیة الاولیا ء، ج ۵ ،ص ۲۱۹، دار الکتاب العمر بیہ، بیروت )
ایسا عمل کرنے والے سے بڑھ کر اس کا وہ شیخ مجرم ہے جس نے اسے یہ طریقہ بتایا ہے، لا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم اور قدم چلتے وقت خشوع ء خضوع اور ادب و ہیبت کی کیفیت ہونی چاہئے ، اور مجھے یوں پسند ہے کہ اس وقت یوں خیال کرے کہ وہ بغداد شریف میں آپ کی مرقد شریف کے سامنے حاضر ہے اور اسے دیکھ رہا ہے، اور یہ خیال کرے کہ حضور غوث اعظم اپنی قبر انور میں قبلہ روسوئے ہوئے ہیں اور قدم چلنے والا بندہ آپ کے کرم پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے مگر اپنے گناہوں کے پیش نظر آگے جانے میں حیا کرتے ہوئے حیران کھڑا ہو جاتا ہے اور گویا اب آپ سے بڑھنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور آپ سے شفاعت طلب کر رہا ہے کیونکہ آپ کا جود وسخا وسیع ہے اور آپ کی یہ بات بشارت ہے کہ” اگر میرا مرید خوب نہیں میں تو خوب تر ہوں” قدم بڑھانے والے کی اس کیفیت کو آپ دیکھ رہے ہیں
اور اس کے فقر وحیا کو جان کر آپ وسیع کرم فرمائیں گے اور اس بندے گنہگار کی شفاعت فرمائیں گے، اور گویا یہ فرمائیں گے کہ میں اس فقیر تنگدست کو اپنی طرف قدم بڑھانے کی اجازت دیتا ہوں ، یہ چلتے ہوئے میرا نام ذکر کرے اور میرے پاس آ کر اپنے گناہوں کا فکر نہ کرے کیونکہ میں دنیاو آخرت میں اس کی مشکلات کا کفیل اور ضامن ہوں ، تو بندہ یہ سن کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور ہر قدم پر وجدانی کیفیت میں یا غوث الثقلین، یا کریم الطرفين ، پکارتا ہے ( کریم الطرفین اس لئے کہ آپ والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی ہیں) اور کہتا ہے میری حاجت براری میں میری مدد کرواے حاجات کو پورا کرنے والے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے حضور علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے ( غوث اعظم) کے وسیلے سے دعا کرے۔
مذکورہ دعا میں ان آداب کا خیال رکھے جو علماء کرام نے ذکر فرمائے ۔۔ دعا کی ابتداء میں ”یا ارحم الراحمین “”تین مرتبہ کہے، کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہے تو اس کو فرشتے جواب میں کہتے ہیں کہ بیشک ارحم الراحمین تیری طرف متوجہ ہے اور ”یا بدیع السموات والارض يا ذالجلال و الاکرام ”بھی ابتداء میں پڑھے کیونکہ ایک قول کے مطابق یہ” اسم اعظم ”ہے۔ اور دعا کے آخر میں تین مرتبہ آمین کہے کیونکہ یہ دعا کی مہر ہے اور یہ خاص اس امت مرحومہ کو عطیہ ہے، اور دعا کے بعد حضور علیہ اصلوة والسلام پر درود وسلام ، اور” الحمد لله رب العلمین پڑ ھے” تا کہ دعا کی ابتدا اور اس کا خاتمہ نمازیں عطا کرنے والے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے درود شریف پر ہو جائے، یہ اس لئے کہ دعا ایک پرندہ ہے اور درود شریف اس کے پر ہیں، اور اس لئے بھی کہ درود شریف مقبول ہے، تو جب دعاء کے ابتدا ، وانتہاء میں درود ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے بعید ہے کہ وہ درمیان میں دعا کو قبول نہ فرمائے۔
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ کے بعد عراق کی جانب گیارہ قدم چلنا کیسا؟
اور دعا میں وتر کا لحاظ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالی وتر ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے، اور ہر بار درود شریف پڑھے کیونکہ درود شریف سے بڑھ کر کوئی چیز مقبولیت کو حاصل کرنے والی نہیں ہے صلی اللہ تعالى على النبي الكريم وآله افضل الصلوة والتسليم اور کوشش کرے کہ دعا میں آنسو نکلیں کیونکہ یہ بھی قبولیت کی علامت ہے، اگر رونا نہ آئے تو رونے والی صورت بنائے کیونکہ جو کسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ بھی انہی میں شمار ہوتا ہے پھر مجھے یہ پسند ہے کہ دعاء کے وقت بھی عراق کی طرف متوجہ رہے کیونکہ یہ جہت شفاعت والوں کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، لہذا اس دعا میں قبلہ کی طرف متوجہ نہ رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ابو جعفر منصور خلیفہ ثانی خاندان عباسیہ نے ایک دفعہ حضرت امام مالک عالم مد ینہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ میں قبلہ رو ہو کر دعا کروں یا حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف متوجہ رہوں، تو امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ حضور علیہا اصلوة والسلام سے اپنا چہرہ نہ پھیر کیونکہ وہ تیرا اور تیرے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ ہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف متوجہ ہو کر ان کو شفیع بنا اللہ تیرے لئے ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ جو شخص دلی یقین سے یہ دعا کرے گا اللہ تعالٰی اس کی حاجت کو پورا فرمائے گا ، بشرطیکہ عجلت سے کام لیتے ہوئے مایوسی کا اظہار نہ کرے کہ میں نے دعا کی اور قبول نہ ہوئی ، یہ دعا قبول ہو گی جبکہ اس میں گناہ یا قطع رمی کا سوال نہ ہو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 645 تا 651