:سوال
زید کہتا ہے کہ نوافل و سنن مسجد میں پڑھنی چاہئیں کہ روافض کی مشابہت نہ ہو، کیا اس کا یہ کہنا درست ہے؟
:جواب
جب ثابت ہو چکا کہ سنن ونوافل کا گھر میں پڑھنا افضل، اور یہی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عادت طیبہ اور حضور نے یونہی ہمیں حکم فرمایا تو خیال مشابہت روافض اُسے ترک کرنا کچھ وجہ نہ رکھتا ہے ، اہل بدعت کا خلاف ان کی بدعت یا شعار خاص میں کیا جائے نہ یہ کہ اپنے مذہب کے امور خیر سے جو بات وہ اختیار کریں ہم اسے چھوڑتے جائیں آخر رافضی کلمہ بھی تو پڑھتے ہیں۔ بالجملہ اصل حکم استحبابی یہی ہے کہ سنن قبلیہ مثل رکعتین فجرور باعی ظہر و عصر وعشا مطلقاً گھر میں پڑھ کر مسجد کو جائیں کہ ثواب زیادہ پائیں، اور سنن بعد یہ مثل رکعتین ظہر و مغرب و عشاء میں جسے اپنے نفس پر اطمینان کامل حاصل ہو کہ گھر جا کر کسی ایسے کام میں جو اسے ادائے سنن سے باز رکھے مشغول نہ ہوگا وہ مسجد سے فرض پڑھ کر پلٹ آئے اور سنتیں گھر ہی میں پڑھے تو بہتر ا اور اس سے ایک زیادت ثواب یہ حاصل ہوگی کہ جتنے قدم بارادۂ بادائے سنن گھر تک آئے گا وہ سب حسنات میں لکھے جائیں گے۔
اور جسے یہ وثوق نہ ہو وہ مسجد میں پڑھ لے کے لحاظ افضلیت میں اصل نماز فوت نہ ہو، اور یہ معنی عارضی افضلیت صلوۃ فی البیت کے منافی نہیں، نظیر اس کی نماز وتر ہے کہ بہتر اخیر شب تک اس کی تاخیر ہے مگر جو اپنے جاگنے پر اعتاد نہ رکھتا ہوہ پہلے ہی پڑھ لے۔ مگر اب عام عمل اہل اسلام سنن کے مساجد ہی میں پڑھنے پر ہے اور اس میں مصالح ہیں کہ ان میں وہ اطمینان کم ہوتا ہے جو مساجد میں ہے اور عادت قوم کی مخالفت موجب طعن و انگشت نمائی و انتشار فنون و فتح باب غیبت ہوئی ہوتی ہے اور حکم صرف استحبابی تھا تو ان مصالح کی رعایت اس پر مرجح ہے، ائمہ دین فرماتے ہیں” الخروج عن العادة شهرة ومكروه ” ترجمہ: معمول کے خلاف کرنا شہرت اور مکروہ ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 415