:سوال
ہمارے یہاں ایک سید صاحب ہیں قرآن کریم کو کافی درست پڑھتے ہیں ایک نہایت ہی اعلیٰ بزرگ کے مرید ہیں ان بزرگ سے ان کو خلافت کا رتبہ مل گیا ہے قرآن مجید اچھا پڑھنے کی وجہ سے اکثر مسجد میں امامت کرتے ہیں لیکن ان کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ یہ کہ ایک باعزت نمازی تہجد خواں پر ہیز گار نو جواں جو ان کا پیر بھائی ہے اور دو چار یوم پہلے سید صاحب اس کو دوست سمجھتے تھے مگر اب لوگوں کو اس سے اور چند اور سے قطع تعلق کی ترغیب دیتے ہیں حالانکہ وہ بے قصور ہیں اور بلاوجہ سید صاحب وغیرہ نے ان کو ذلیل کرنے کے لئے یہ حرکت کی ہے کہ ایک بڑے مجمع میں سید صاحب نے بیٹھ کر قرآن شریف درمیان رکھ کر اہل مجلس کو علانیہ کہا کہ ان چند آدمیوں سے قطع تعلق کی قسم کھاؤ اور قرآن عظیم کو ہاتھ لگاؤ کہ ہمارا یہ قول تا زندگی رہے گا۔ آیا سید صاحب موصوف امامت کے قابل ہیں یا نہیں؟
:جواب
اگر یہ واقعی بات ہے کہ سید صاحب مذکور نے ان مسلمانوں سے بلا وجہ شرعی محض کسی خصومت دنیوی ( دنیوی رنجش) کے سبب اپنے پیر بھائی اور مسلمانوں سے قطع تعلق کیا اور ہمیشہ کے لئے کیا اور علانیہ بر سر مجلس کیا تو قابل امامت نہ رہے اور ان کو امام بنانا منع ہے جب تک اس حرکت سے علانیہ تو بہ نہ کریں کہ بلا وجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں ۔ سے قطع تعلق حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” لا يحل لرجل يهجر اخاه فوق ثلث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ” آدمی کو حلال نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے راہ میں ملیں تو یہ ادھر منہ پھیر لے وہ اُدھر منہ پھیر لے اور ان میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے یعنی ملنے کی پہل کرے۔
( صحیح بخاری ، ج 2، ص 897، قدیمی کتب خانہ، کراچی )
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم” لا يحل لمؤمن ان يهجر مؤمنا فوق ثلث فان مرت به ثلث قليلقه فليسلم عليه وان رد عليه السلام فقد اشتركا في الاجر فان لم يرد عليه فقد باء بالاثم وخرج السلم من الهجرة ” کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ کسی مسلمان سے تین رات سے زیادہ قطع کرے ، جب تین را تین گزر جائیں تو لازم ہے کہ اس سے ملے اور اسے سلام کرے، اگر سلام کا جواب دے تو دونوں ثواب میں شریک ہوں گے اور وہ جواب نہ دے گا تو سارا گناہ اس کے سر رہا یہ سلام کرنے والا قطع کے وبال سے نکلے گا۔
(سنن ابی داؤد ، ج 2، ص 317، آفتاب عالم پریس، لاہور )
تیسری حدیث میں فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ”لا يحل لمسلم ان يجهر اخاه فوق ثلث فمن هجر فوق ثلث فمات دخل النار ” مسلمان کو حرام ہے کہ مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے، جو تین رات سے زیادہ چھوڑے اور اسی حالت میں مرے وہ جہنم میں جائے گا۔
(سنن ابی داؤد ، ج 2، ص 317، آفتاب عالم پریس، لاہور )
معلوم ہوا کہ یہ کبیرہ ہے کہ اُس پر وعید نار ہے اور کبیرہ کا علانیہ مرتکب فاسق معلن ، اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔ اور اس میں برابر ہیں وہ جن سے سید صاحب نے قطع تعلق کیا اور وہ جن سے قطع نہ کیا سب کی نماز ان کے پیچھے مکروہ تحریمی ہوگی جب تک تو یہ نہ کریں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 601