ولادت حضور کے وقت قیام کو بدعت کہنے والے کے پیچھے نماز
:سوال
حضور ﷺ کی ولادت کے وقت قیام کو جو شخص بدعت نا جائز کہے، اس طرح ختم قرآن کے موقع پر شرینی تقسیم کرنے کو بھی بدعت کہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
:جواب
قیام وقت ذکر ولادت حضور سید الا نام علیہ وعلی آلہ افضل الصلاة والتسلیم جس طرح حرمین طیبہ طیبین و مصر و شام و سائر بلاد اسلام میں رائج و معمول ہے ضرور مستحسن و مقبول ہے۔ علامہ سید جعفر برزنجی رحمہ اللہ تعالی جن کا رسالہ میلا دمبارک حرمین طیبین و دیگر بلاد عرب و عجم میں پڑھاتا جاتا ہے اس رسالہ میں فرماتے ہیں ” قد استحسن القيام عند ذكر مولد الشريف صلى الله تعالى عليه وسلم ائمة ذوورواية ودراية فطوبى لمن كان تعظيمه صلى الله تعالى عليه وسلم غاية مرامه و مرماه “ ترجمہ: بے شک ذکر ولادت اقدس کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن جانا جو اصحاب روایت وار باب در ایت تھے تو خوشی اور شاد بانی ہو اس کے لئے جس کی نہایت مراد و غایت مقصود محمدصلی اللہ تعالی علیہ سلم کی تعظیم ہو۔
( قیام بوقت ذکر تولد خیر الا نام ،ص 25 ، جامعہ اسلامیہ،لاہور )
یہاں آج کل اس قیام مبارک کو بدعت و نا جائز کہنے والے حضرات وہابیہ ہیں خذلھم اللہ تعالی ( اللہ تعالی انھیں خوار کرے اور وہابیہ زمانہ اب بدعت و ضلالت سے ترقی کر کے معراج کفر تک پہنچ چکے ہیں بہر حال ان کے پیچھے نماز نا جائز اور انھیں امام بنانا حرام ، یوں ہی ہے ہی ختم قرآن عظیم کے وقت مسلمانوں میں شیرینی کی تقسیم بھی ایک امر حسن و محمود ہے اسے بدعت بتانا انہی اصول ضالہ وہابیت پر مبنی ہے اللہ عز وجل نے تو وجوب و ممانعت کی یہ معیار بتائی تھی (وَمَا أَتيكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَكُمُ عَنْهُ فَانتَهُوا )ترجمہ: رسول جس بات کا تمھیں علم دیں وہ اختیار کرو اور جس بات سے منع فرمائیں باز رہو۔
مگر وہابی صاحبوں نے معیار ممانعت یہ رکھی ہے کہ جسے ہم منع کر دیں اسے بچو اگرچہ اللہ و رسول ( عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) نے کہیں منع نہ فرمایا ہو، غرض یہ اس کا شرک فی الرسالت ہے اس کے پیچھے ہر گز نماز پڑھی نہ جائے ، والعياذ بالله تعالی رب العالمين۔
READ MORE  امام پر سہو واجب ہو تو امام کے ساتھ لاحق کو سجدہ کرنا چاہئے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top