: سوال
حافظ کریم بخش امام مسجد یتیموں کا مال پوشیدہ لے جانے میں شریک ہوا اور اقرار بھی کیا، اس سبب سے مقتدیوں نے اقتدا کرنا چھوڑ دی، آیا مقدیوں نے صحیح کیا ؟ اگر وہ امام توبہ کرلے تو کیا حکم ہے؟
:جواب
پر ایا مال بے اذن شرعی لینا چوری اور گناہ کبیرہ ہے، رول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں”لایسرق السارق حين يسرق و هو مومن ” چور چوری کرتے وقت ایمان سے الگ ہو جاتا ہے۔
(صحیح البخاری ، ج 2 ،ص 836 قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اور یتیموں کا مال ناحق لینا سخت تر کبیرہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَحْمَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴾ جو لوگ تیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں نری آگ کھاتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں جائیں گے۔ تییموں کا حق کسی کے معاف کئے معاف نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ خود یتیم کا داد ایا ماں کسی نا بالغ کے ماں باپ اس کا حق
کسی کو معاف کر دیں ہرگز معاف نہ ہوگا۔
محض یتیموں کا حق ضرور دینا پڑے گا اور جو نکلوا سکتا ہے اسے چاہیے کہ ضرور دلا دے ہاں یتیم بالغ ہونے کے بعد معاف کرے تو اس وقت معاف ہو سکے گا۔ مقتدیوں نے کہ ایسی حرکات نشائستہ کے باعث امام کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی بہت اچھا کیا انھیں اسی کا حکم تھا۔ امام اپنی اس حرکت سے ضرور فاسق ہوا اور فاسق کے پیچھے نماز ضرور مگر وہ ہے جبکہ سچی تو بہ نہ کرے اور مال لینے والے کی تو بہ بغیر مال واپس دئے ہرگز صحیح نہیں تو جب تک وہ یتیموں کا حق نہ پھیرے نماز اس کے پیچھے بیشک مکروہ۔
(ج6،ص496)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 496