:سوال
ہکلے کے پیچھے نماز کیسی ہے؟
:جواب
اگر ہکلا نماز میں نہ ہکلائے جیسے بعض لوگوں کا ہکلانا وقت غضب سے مخصوص ہوتا ہے صرف غصہ میں ہکلانے لگتے ہیں ویسے صاف بولتے ہیں یا بعض کا ہکلانا بے پروائی کے ساتھ ہوتا ہے اگر تحفظ و احتیاط کریں تو کلام صاف ادا ہو ایسے لوگوں کو دیکھا گیا کہ باتوں میں ہکلاتے ہیں اور اذان و نماز و تلاوت میں اس کا کچھ اثر نہیں پایا جاتا ایسی صورت میں تو کلام نہیں کہ وہ حق نماز میں خود فصیح ہے۔
:اور جو ہر جگہ ہکلائے اس کی تین قسمیں ہیں
ایک وہ کہ ان کی تکرار میں بعض حروف معین ہیں مثلاً کاف یا چ یاپ کہ جہاں رکیں گے ان ہی حروف کی تکرار کریں گے یا گھبرا کر ایں ایں کرنے لگتے ہیں ان کے پیچھے فساد نماز بد یہی ہے۔
دوسرے وہ کہ جس کلمہ پر رکتے ہیں اُسی کے اول حرف کی تکرار کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ حرف خارج نہیں بڑھتا بلکہ اسی کلمہ کا ایک جزو مکر را دا ہوتا ہے مگر از انجا کہ حرف بوجہ تکرار لغو و مہمل و خارج عن القرآن رہ گیا ان کے پیچھے بھی نماز فاسد ہے۔
تیسرے وہ کہ ہکلاتے وقت نہ کوئی حرف غیر نکالتے ہیں نہ اسی حرف کی تکرار کرتے ہیں بلکہ صرف رک جاتے ہیں اور جب ادا کرتے تو ٹھیک ادا کرتے ہیں ایسوں کے پیچھے نماز صحیح ہے، رہا یہ کہ کوئی کراہت بھی ہے یا نہیں، ظاہر ہے کہ اگر ان کا ر کنا اتنی دیر نہیں ہوتا جس میں ایک رکن ادا کر لیا جائے جب تو کراہت کی کوئی وجہ نہیں اور اگر اتنی دیر ہو تو اگر چہ بوجہ سہو ( ہو ) اس قدر
سکوت موجب سجدہ سہو ہے اور بلا عذر کراہت تحریم ۔ اور اگر ان کا رکنا بعذ رہے جس طرح جمائی یا چھینک یا کھانسی وغیر ہا اعذار کے باعث بعض اوقات سکوت بقدر ادائے رکن ہو جاتا ہے تو ظاہراً یہاں وہ حکم نہیں ، ہاں اس میں شک نہیں کہ ان کا غیر ان سے اولی ہے جبکہ یہ سب حا ضرین سے اعلم با حکام ظہارت و نماز نہ ہوں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 452