:سوال
کوئی مولوی احنا ی احناف کو ذریۃ الشیطان ( شیطان کی اولاد) اور کتاب وسنت کامنکر لکھے اور غیر مقلدی کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہو، بعض اوقات کسی مصلحت دنیوی سے اپنے آپ کو حنفی المذہب ظاہر کرے، ایسے شخص کی اقتداء اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسے شخص کو مخفی کہا جائے گا یا نہیں؟
:جواب
جو ذریۃ الشیطان کتاب وسنت کا منکر حنفیہ کرام خصهم الله تعالى باللطف والاكرام ( اللہ ان کو اپنے لطف واکرام کے ساتھ خاص فرمائے) کا نام رکھتا ہے پر ظاہر ( بہت زیادہ ظاہر ) کہ وہ گمراہ خود کا ہے کو ( کیونکر ) خفی ہونے لگا اگر چہ کسی مصلحت دنیوی سے براہ تقیہ شنیعہ اپنے آپ کو حنفی المذہب کہے کہ اُس کے افعال و اقوال مذکورہ سوال اُس کی صریح تکذیب پر دال ، منافقین بھی تو زبان سے کہتے تھے( نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ ) ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ مگر ان ملاعنہ کے گفتار و کردار اس جھوٹے اقرار کے بالکل خلاف تھے،
قرآن عظیم نے اُن کے اقرار کو ان کے منہ پر مار(وَ اللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَ اللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنفِقِينَ لَكَذِبُونَ ) اللہ خوب جانتا ہے کہ تم بیشک اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔ ایسے شخص کی اقتداء اور اُسے امام بنانا ہرگز روا نہیں کہ وہ مبتدع گمراہ بد مذہب ہے اور بد مذہب کی شرعاً تو ہین واجب اور امام کرنے میں عظیم تعظیم تو اُس سے احتراز لازم ۔ حدیث میں ہے حضور پر نو رسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”من وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الاسلام ” ترجمہ: جو کسی بدعتی کی تو قیر کرے اس نے دین اسلام کے ڈھانے میں مدد کی۔
(شعب الایمان ، ج 7، ص61،دار الكتب العلمیة بیروت)
مزید پڑھیں:گناہ سے توبہ کر لینے والے کے پیچھے نماز کا حکم؟
تو ایسے شخصوں کو امام کرنا گویا دین اسلام ڈھانے میں سعی کرنا ہے العیاذ باللہ تعالیٰ ۔ سنن ابن ماجہ میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” لا يؤمن فاجر مؤمنا الا ان يقهره بسلطانه یخاف سیفه اوسوطه” ترجمہ: ہرگز کوئی فاجر کسی مومن کی امامت نہ کرے مگر یہ کہ وہ اسے اپنی سلطنت کے زور سے مجبور کر دے کہ اس کی تلوار یا تازیانہ کا ڈر ہو۔ محقق علی الاطلاق فتح میں فرماتے ہیں” روی محمد ابن ابی حنیفه و ابي يوسف رحمنیما الله تعالى ان الصلوة خلف اهل الأهواء لا تجوز ” ترجمہ: امام محمد نے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف جمہم اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
( فتح القدیر ، ج 1، ص 304 : مطبع نوریہ رضو یہ سکھر )
فقیر غفر اللہ تعالیٰ نے ان حضرات غیر مقلدین کے پیچھے نماز جائز وممنوع ہونے کے باب میں ایک مفصل رسالہ مسمی ”بہ الننهي الأكيد عن الصلاة وراء عدى التقليد ”لکھا اور اس میں ۔ ۔ ان کے پیچھے نماز ممنوع ہونے کا ثبوت دیا۔ ازاں جملہ یہ کہ اُنھوں نے نماز و طہارت وغیر ہا کے مسائل میں آرام نفس کی خاطر وہ باتیں ایجاد کی ہیں جو مذاہب اربعہ عموماً مذ ہب مہذب حنفی خصوصاً کے بالکل خلاف ہیں مسح سر کے عوض پگڑی کا مسح کافی مانتے ہیں ، لوٹے بھر پانی میں تولہ بھر پیشاب پڑ جائے اُس سے وضو جائز ٹھہراتے ہیں کہ یہ مسائل اور ان کے امثال ان کی کتب میں منصوص ہیں
پھر دین میں ان کی بیبا کی وسہل انگاری و بے احتیاطی و آرام جوئی مشہور و مشہود و عام گروہ اہل حق بالخصوص حضرات حنفیہ کے ساتھ ان کا تعصب معروف و معہود تو ہرگز مظنون نہیں کہ یہ برعایت مذہب حنفیہ اپنے ان مسائل پر عمل سے بچیں بلکہ بحالت امامت بنظر تعصب عدادت اس کا خلاف ہی مظنون۔ پھر جمہور ائمہ کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ شافعی المذہب کی اقتداء بھی اس حالت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ مواضع خلاف مذہب حنفیہ کی رعایت کرتا ہو حنفیہ سے بغض نہ رکھتا ہو ورنہ اصلاً جائز نہیں تو یہ بد مذہب کہ چاروں مذہب سے خارج ومہجور رعایت مذہب حنفیہ سے سخت نفور اور بغض و تعصب میں معروف و مشہور، ان کے پیچھے نماز کیونکر روا ہو سکتی ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 398 تا 401