:سوال
زید ایک مسجد میں امامت کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ جو مرد اپنی بی بی سے قربت کرے اور جب تک نہ نہائے مور دلعنت ہے اور کہتا ہے کہ جو شخص دروازہ مسجد کو مسجد کی حفاظت کے لئے تالا لگائے ، اس مسجد میں نماز قطعی حرام ہے وہ آدمی سنگسار کیا جائے گا اور بغیر علم کے ترجمہ قرآن مجید کرے اور فرض کو سنت اور واجب کو مستحب بیان کر کے جھوٹے حوالے کتاب کے دے اور ایک مرتبہ نماز جنازہ چار تعبیرات کے ساتھ نماز جنازہ ہونے کے بعد پانچ تکبیر جو کہ منسوخ ہیں سے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائے اور جائز کونا جائز کے کہے اُس کے حق میں اور اس کے ممدو معاون کے حق میں شرعاً کیا حکم ہے؟
:جواب
:زید جاہل، سخت جری، بیباک ہے
:اولاً
اس کا علی الاطلاق کہنا کہ جو اپنی بی بی سے قربت کرے جب تک نہ نہائے معاذ اللہ مور رلعنت ہے شریعت مطہرہ پرسخت افترائے ناپاک ہے حکم صرف اس قدر ہے کہ مہما امکن ( جتنا جلدی ممکن ہو ) نہانے میں تعجیل ( جلدی کرنا ) مندوب و محبوب ہے، اگر نہ نہائے تو وضو کر رکھے کہ جہاں جنب ہوتا ہے وہاں فرشتے آنے سے احتراز کرتے ہیں مگر غسل میں تعجیل نہ کرنے والا معاذ اللہ مور د لعنت ہونا در کنار سرے سے گناہگار بھی نہیں جب تک تاخیر باعث فوت نماز یا دخول وقت کراہت تحریمی نہ ہو، خود صاحب شرح صلی للہ تعالی علیہ سلم نے تعلیم جواز کے لئے بعض اوقات بلکہ خاص شبہائے ماہ مبارک رمضان میں صبح تک تاخیر غسل فرمائی ہے کہ حضور پرنور صل اللہ تعالی علیہ سلم کے اس فعل سے امت کو دو مسئلہ تخفیف ورحمت معلوم ہوں۔
ایک یہی نسل میں تعجیل گو بہتر ہے پر واجب نہیں، نماز تک تاخیر کا اختیار رکھتا ہے۔
دوسرے یہ کہ بحالت جنابت صبح کرنے سے روزے میں کوئی خلل یا نقص نہیں آتا۔
احمد و بخاری و مسلم ام المومنین صدیقہ وام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی ” ان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم كان يصبح جنباً من جماع ثم يغتسل ويصوم زادفي زاوية في رمضان ” ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم( بعض اوقات )جماع کی وجہ سے جنبی حالت میں صبح کرتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے، ایک روایت میں رمضان کا بھی اضافہ ہے۔
(صحیح بخاری ، ج 1، ص 258 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی )
مزید پڑھیں:نابینا حافظ و قاری کو امام بنانا کیسا؟
:ثانیاً و ثالثا
مسئلہ مسجد میں خدا اور سول پر دو افترا اور کئے ، ایک یہ کہ اس مسجد میں نماز حرام ، دوسرا یہ کہ وہ آدمی سنگسار کیا جائے، پہلے افترا سے وہ اُن لوگوں میں داخل ہوا جنہیں قرآن عظیم نے فرمایا (وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُه وَسَعَى فِي خَرَابِهَا ) ترجمہ: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی مسجدوں کو ان میں یا دالہی ہونے سے رو کے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔ اور دوسرے سے وہ بے گناہ مسلم کے ناحق قتل کا فتوی دینے والا ہوا، علماء صاف اجازت دیتے ہیں کہ حاجت کے وقت غیر اوقات نماز میں حفاظت کے لئے درواز ہ مسجد بند کرنا جائز ہے۔
ہاں بے حاجت یا غیر وقت حاجت خصوصاً اوقات نماز میں بند کرنا ممنوع اور بند کرنے والا گناہگار مگر نہ ایسا کہ سنگسار کرنے کے قابل، اور یہ سخت جہالت فاحشہ دیکھئے کہ اس مسجد میں نماز حرام سبحان اللہ ! اُس نے تو ایک آد ھ وقت درو از بند کیا یہ ہمیشہ کو تیغا کئے دیتا ہے وہ سنگسار کرنے کے قابل ہوا یہ کسی سزا کے لائق ہوگا۔
: رابعاً
بے علم ترجمہ قرآن مجید میں دخل دینا گناہ کبیرہ ہے، خود قرآن مجید فرماتا ہے( أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ) ترجمہ یا تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ حدیث میں ہے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں ” من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار ”جو بغیر علم کے قرآن میں زبان کھولے وہ اپنا گھر جہنم میں بنالے۔
( جامع الترندی ، ج 2، ص 119 ، کتب خانہ رشید یہ امین کمپنی دہلی)
مزید پڑھیں:مسبوق کے قعدہ اولی کا طریقہ
: خامساً ، سادساً ، سابعاً
بے سمجھے بو جھے مسائل شرعیہ میں مداخلت کرنا غلط سلط جو منہ پر آیا فرض کو سنت ، واجب کو مستحب ، ناجائز کو جائز بتا دینا بھی گناہ عظیم ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”اجر وكم على الفتيا اجر وكم على النار ” جو تم میں فتوی پر زیادہ بیباک ہے آتش دوزخ پر زیادہ جری ہے۔
(سنن الداری ، ج 1 ص 53 نشر النتہ ملتان )
: ثامناً تاسعاً عاشر ا
کتابوں کے جھوٹے حوالے دینا کذب و افتراء اور وہ بھی علماء پر اور وہ بھی امور دین میں، یہ سب سخت گناہ ہیں ، مسائل میں علماء پر افتراء، شرع پر افتراء اور شرع پر افتراء خدا پر افتراء – اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ الْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَلٌ وَ هَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴾ ترجمہ نہ کہوا سے جو تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالی پر جھوٹ باندھو، بے شک جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا۔ اور جنازہ کی نماز جب ایک بار ہو چکی تو ہمارے علمائے کرام کے نزدیک اس کا اعادہ جائز نہیں مگر یہ کہ صاحب حق یعنی ولی میت کےبے اذن دیئے عام لوگوں سے کسی نے پڑھادی اور ولی شریک نہ ہوا تو اُسے اعادہ کا اختیار ہے پھر بھی جو پہلے پڑھے چکے اب نہ ملیں کہ اس کی تکرار مشروع نہیں۔
اور پانچ تکبیریں تو ہمارے ائمہ بلکہ ائمہ اربعہ بلکہ جمہور ائمہ کے نزدیک منسوخ ہیں بلکہ امام ابو عمر یوسف بن عبد البر مالکی نے فرمایا چار پر اجماع منعقد ہو گیا و لہذا ہمارے علماء کرام حکم فرماتے ہیں کہ امام پانچویں تکبیر کہے تو مقتدی ہرگز ساتھ نہ دیں خاموش کھڑے رہیں، یہی صحیح ہے، اور بعض روایات میں تو یہاں تک ہے کہ وہ تکبیر پنجم کہے تو یہ سلام پھیر دیں کہ اتباع منسوخ کار د خوب واضح ہو جائے۔ زید کہ یہ حرکت بھی وہی جہل و جرات ہے یا غیر مقلدی کی آفت و علت ۔ بہر حال اس کے اقوال مذکورہ سوال شاہد عدل کہ وہ فاسق و بیباک ہے اور فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ناقص و خراب ہوتی ہے۔
پس حتی الامکان ہرگز اس کی اقتدا نہ کریں اور جتنی نماز یں اس کے پیچھے پڑھ چکے ہوں سب پھیریں اور ان باتوں پر جو اس کے ممد و معاون ہیں وہ بھی گناہ میں اُس کے شریک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ گناہ اور حد سے بڑھنے میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 393 تا 397