:سوال
زید نماز میں زبان سے قرآت نہیں کرتا بلکہ زبان تالو سے لگا کر دلی خیال کے ساتھ ادا کرتا ہے قرآن شریف و درود شریف و غیر و سب دھیان سے ادا کرتا ہے کہتا ہے کہ قرآن شریف حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے قلب پر القا ہوا تھا اسی وجہ سے بمقابلہ زبانی پڑھنے کے دل میں خیال کرنا زیادہ افضل ہے ، زید اپنی زبان کو تالو سے لگا کر بالکل معطل اور بیکار کردیتاہے، زید کہتا ہے کہ یہ مسائل اہل ذوق اور اصفیاء کرام کے ہیں، ظاہرین ان مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ مذکورہ طریقہ پرزید کی نماز ہوتی یا نہیں ؟ اور وہ امامت بھی کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟
:جواب
زید نے شریعت پر افترا کیا ، صوفیہ کرام پر افترا کیا، اپنی نمازیں سب بر باد کیں ، اس کی ایک نماز بھی نہیں ہوئی نہ ا سکے پیچھے دوسروں کی ہوئی ، اس پر فرض ہے کہ جتنی نمازیں ایسی پڑھی ہوں سب کی قضا کرے اور جتنی نماز یں اوروں نے اس کے پیچھے پڑھی ہیں اُن پر بھی فرض ہے کہ اُن کی قضا کریں۔ قرآن عظیم حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ضرور قلب مبارک پرنازل ہو اگر پڑھنے کیلئے۔
﴾ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنَهُ لِتَقَرَاهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْث
:ترجمہ
اس قرآن کو تھوڑا تھوڑاکر کے اتارا کہ تم لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
مزید پڑھیں:التحیات میں انگلی سے اشارہ کرنے میں قول
نماز میں قرآن کا پڑھنا فرض ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَاقْرَأَوُا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ﴾ نماز میں قرآن پڑھو جتنا آسان ہو۔ اس کا نام پاک ہی قرآن ہے قرآن قرآت سے اور قرآت پڑھنا اور پڑھنا نہ ہو گا مگر زبان سے ، دل میں تصور کرنے کو پڑھنا نہیں کہتے ، حالت جنابت میں قرآن پڑھنا حرام ہے اور تصور منع نہیں ۔ نماز میں قرآت کلام مجید پر اجماع مسلمین کا خلاف جہنم کا خیال ہے۔
:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَنْ يُشَاقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعُ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُولَهِ مَا تَوَلَّى وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَ ت مصیرا ترجمہ: جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی مخالفت کرتا ہے اور مومنین کی راہ کے علاوہ راہ پر چلتا ہے ہم پھیر دیں گے اسے اس راہ پر جس پر وہ چلا اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 192