:سوال
ریل اور کشتی پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
:جواب
فرض اور واجب جیسے وتر ونذر اور ملحق بہ یعنی سنت فجر چلتی ریل میں نہیں ہو سکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے، پڑھ لے پھر بعد استقرار ( ٹھہرنے کے بعد ) اعادہ کرے۔ تحقیق یہ ہے کہ استقرار بالکلیہ (زمین پر مکمل جماؤ ) ولو بالوسائط (اگر چہ واسطوں کے ساتھ ہو ) زمین یا تابع زمین پرکہ زمین سے متصل با تصال قرار ہو، ان نمازوں میں شرط صحت ہے مگر بہ تعذر ( ہاں عذر میں معافی ہے )۔
یادر ہے کہ عذر کی دو صورتیں ہیں اگر عذر من جہتہ اللہ تعالی ہو تو اعادہ کی حاجت نہیں اور عذر من حہتہ العباد ( بندوں کی طرف سے ) ہو تو اعادہ کرنا پڑھے گا ولہذا ( اسی وجہ سے ) دا بہ ( جانور ) پر بلا عذر جائز نہیں اگر چہ ( جانور ) کھڑا ہو کہ دابہ تابع زمین نہیں ۔ و لہذا ( اسی وجہ سے گاڑی پر جس کا جو ابیلوں پر رکھا ہے اور گاڑی ٹھہری ہوئی ہے جائز نہیں کہ بالکلیہ زمین پر استقرار نہ ہوا ایک حصہ غیر تابع زمین پر ہے۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
ولہذا چلتی کشنی سے اگر زمین پر اتر نامیسر ہوکشتی میں پڑھنا جائز نہیں بلکہ عند التحقیق اگر چہ کشتی کنارے پر ٹھہری ہومگر پانی پر ہو زمین تک نہ پہنچی ہو اور کنارے پر اتر سکتا ہے کشتی میں نماز نہ ہوگی اس کا استقرار پانی پر ہے اور پانی زمین سے متصل باتصال قرار نہیں جب، استقرار کی حالتوں میں نمازیں جائز نہیں ہوتیں جب تک استقرار زمین پر اور وہ بھی بالکلیہ نہ ہو تو چلنے کی حالت میں کیسے جائز ہو سکتی ہیں کہ نفس استقرار ہی نہیں بخلاف کشتی رواں جس سے نزول متیسر نہ ہوکہ اسے اگر روکیں گے بھی تو استقرار پانی پر ہوگا نہ کہ زمین پر لہذا سیر و وقوف ( چلنا اور ٹھہر نا ) برابر لیکن اگر ریل روک لی جائے تو زمین ہی پر ٹھہرے گی اور مثل تخت ہو جائیگی ، انگریزوں کے کھانے وغیرہ کے لئے روکی جاتی ہے اور نماز کے لئے نہیں تو منع من جہتہ العباد ہوا اور ایسے منع کی حالت میں حکم وہی ہے کہ نماز پڑھ لے اور بعد زوال مانع اعادہ کرے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 136