:سوال
اگر فضائل میں کوئی بے سند حدیث کتب علماء میں موجود ہوتو کیا قبول ہوگی ؟
:جواب
علمائے کرام تو ایسی جگہ صرف کلمات بعض علم میں بلا سند مذکور ہوناہی سند کافی سجھتے ہیں اگر چہ طبقہ رابعہ وغیر ہا کسی طبقہ حدیث میں اُس کا نام نہ نشان نہ ہو، حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کےوصال اقدس کے بعد امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا حضور والا کو ندا کر کے بابی انت و امی یارسول اللہ میرے ماں باپ حضور پر قربان یا رسول اللہ کہہ کر حضور کے فضائل جلیلہ و شمائل جمیلہ عرض کرنا۔
یہ حدیث امام ابو محمد عبداللہ بن علی لخمی اندلسی رشاطی نے کہ پانچویں صدی کے علماء سے تھے، اور ابو عبد الله محمد محمد ابن الحاج عبدری کی مالکی نے کہ آٹھویں صدی کے فضلا سے تھے اپنی کتاب مدخل میں ذکر کی دونوں نے محض بلا سند۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
ائمہ کرام و علمائے اعلام نے اس سے زائد اس کا پتا نہ پایا کتب حدیث میں اصلا نشان نہ ملا مگر از انجا که مقام مقام فضائل تھا اسی قدر کو کافی سمجھا، ان نادانوں کی طرح طبقہ رابعہ میں ہونا در کنار اصلا کسی طبقہ میں نہ ہونا بھی انہیں اُس کے ذکرو قبول سے مانع نہ آیا بلکہ اس سے استناد فرمایا۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ مناہل میں فرماتے ہیں میں نے یہ حدیث کسی کتاب میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوا را ور ابن الحاج نے مدخل میں ایک حدیث طویل کا ذکر کیا ہے، ایسی حدیث کو اتنی ہی سند بہت ہے کہ وہ کچھ احکام سے متعلق نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 555