:سوال
زکوۃ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دینا افضل ہے، اگر اپنے قریبی ہاشمی ہوں تو ؟
:جواب
بیشک زکوۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دینا افضل اور دو چند اجر کا باعث ہے، زینب ثقفیہ زوجہ عبداللہ بن مسعود اور ایک بی بی انصاری رضی اللہ تعالی عنہم در اقدس پر حاضر ہوئیں اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی عرض کر بھیجا کہ ہم اپنے صدقات اپنے اقارب کو دیں حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا
(لھما اج ان ان اجر القرابة واجر الصدقة)
ترجمہ: ان کے لیے دو ثواب ہوں گے ایک ثواب قرابت اور دوسرا تصدق کا۔
صحیح مسلم کتاب زکوۃکو ، ج 1 میں 323 فصل الفقہ والصد قہ و علی الاقربین قدیمی کتب خانہ کراچی
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالى عليه وسلم
(الصدقة على المسكين صدقة وعلى ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة)
ترجمہ مسکین کو دینا اکہر ا صدقہ ہے اور رشتہ دار کود ینا دو ہرا، ایک تصدق اور ایک صلہ رحم۔
(جامع الترمذی، ابواب الركوة ، باب ماجاء فی الصدق علی ذی القربة مع 1 جس 83 امین کمپنی دیلی)
مزید پڑھیں:خالصا لوجہ اللہ جو چیز دی جائے اس کا کھانا غنی کو کیسا ہے؟
بلکہ حدیث ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
یا امة محمد والذي بعثني بالحق لا يقبل الله صدقة من رجل وله قرابة محتاجون الى صلته ويصرفها الى غيرهم والذي نفسي بيده لا ينظر الله إليه يوم القيام
ترجمہ : اے امت محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) قسم اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا اللہ تعالی اس کا صدقہ قبول نہیں فرماتا جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کی حاجت رکھیں اروہ انھیں چھوڑ کر اوروں پر تصدق کرے ہم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالی روز قیامت اس پر نظر نہ فرمائے گا۔
مجمع الزوائد بحوالہ مجم اوسط ، باب الصدقة على الاقارب الخ 3 ص 117، دار الكتاب العربی، بیروت)
مگر یہ صورت میں ہے کہ وہ صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو، زکوۃ کے لیے شریعت مطہرہ نے مصارف معین فرمادے ہیں اور جن جن کو دینا جائز ہے صاف بتا دئے ، اس کے رشتہ داروں میں وہ لوگ جنھیں دینے سے ممانعت ہے ہرگز استحقاق نہیں رکھتے ، نہ اُن کے دئے زکوۃ ادا ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹےکو دینا، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعت مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحت مستثنی فرمالیا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 287