وطن اصلی چھوڑ دیا اب وہاں آئے تو مسافر ہوگا یا نہیں؟
:سوال
کوئی شخص اپنے وطن اصلی سے سفر کر کے دوسری جگہ میں جو سفر شرعی تین منزل سے زائدہ ہے بوجہ تجارت یا نوکری وغیرہ کے جارہا ہومگر اہل و عیال اس کے وطن اصلی میں ہوں اور اکثر قیام اُس کا وطن ثانی میں رہنا ہوگا ، سال بھر میں مہینہ دو مہینہ کے واسطے اہل وعیال میں بھی رہ جاتا ہو یا بعض اہل کو ہمراہ لے جائے اور بعض کو وطن چھوڑ جائے یا کل متعلقین ہمراہ لے جائے صرف مکانات وغیرہ کا تعلق وطن اصلی میں باقی ہو اور ان سب صورتوں میں ان کا زیادہ تر اور اکثر قیام وطن ثانی میں رہتا ہے اور کم اتفاق رہنے کا وطن اصلی میں ہوتا ہے، ایسی صورت میں یہ شخص کہیں سے سفر کرتا ہوا وطن ثانی میں آئے اور پندرہ ۱۵ اروز قیام کا قصد نہ رکھتا ہو تو پوری پڑھے گا یا قصر؟
:جواب
جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کر لیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل و عیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام بیک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل و مستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 271

READ MORE  اگر کسی فقیر کے ذمہ قرض ہو اور وہ فدیہ پانے کا مستحق ہوتو کیا فدیہ میں اسے معاف کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھیں:مسافر کتنی دور جانے پر مسافر کہلائے گا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top