تہجد اور ظہر کی جماعت میں ترجیح
:سوال
اگر بالفرض وہ شخص ظہر کی جماعت اولی اور تہجد میں سے ایک ہی پاسکتا ہو تو کیا تہجد کو تر جیح دے؟
:جواب
فرض خلاف واقع ( خلاف واقع کے فرض کرنے ) کا مان لینا ہی ضرور تو جماعت اولی پر تہجد کی ترجیح محض باطل و مہجور، اگر حسب تصریح عامہ کتب تہجد مستحب و حسب اختیار جمہور مشائخ جماعت واجب مانئے جب تو ظاہر کہ واجب و مستحب کی کیا برا بری نہ کہ اس کو اس پر تفضیل و برتری۔ ا ور اگر تہجد میں اعلی الافوال کی طر ف ترقی اور جماعت میں ادنی الاحوال کی جانب تنزل کر کے دونوں کو سنت ہی مانئے تا ہم تہجد کو جماعت سے کچھ نسبت نہیں جماعت بر تقدیر سنیت بھی تمام سنن حتی کہ سنت فجر سے بھی اہم و آکد و اعظم ہے والہذا اگر امام کو نماز فجر میں پائے اور سمجھے کہ سنتیں پڑھے گا تو تشہد بھی نہ ملے گا تو بالا جماع سنتیں ترک کر کے جماعت میں مل جائے۔
اور سنت فجر بالا تفاق بقیہ تمام سفن سے افضل، والہذا بصورت فوت مع الفریضہ ( فرض کے ساتھ فوت ہونے کی صورت میں ) بعد وقت قبل زوال ان کی قضا کا حکم ہے بخلاف سائر سفن ( باقی سنتوں کے ) کہ وقت کے بعد کسی کی قضا نہیں، والہذا بلا عذر میبح ( مباح کرنے والے عذر کے بغیر ) سنت فجر کو بیٹھ کر پڑھنا نا جائز بخلاف دیگر سنن کہ بے عذر بھی روا اگر چہ ثواب آدھا ، والہذا صاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ کہ قائل سنیت و تر ہوئے ( وتر کو سنت کہتے ہیں ) سنت فجر کو اس سے آکدماننے کی طرف گئے۔ پھر مذہب اصح پر سنت قبلیہ ظہر بقیہ سنسن سے آ کد ہیں۔ اور امام شمس الائمہ حلوانی کے نزدیک سنت فجر کے بعد افضل و آکد رکعتیں مغرب میں پھر رکھتیں ظہر پھر رکھتیں عشاء پھر قبلیہ ظہر کمافی الفتح وغیرہ۔
مزید پڑھیں:بغیر اذان واقامت کے محراب سے ہٹ کر جماعت ثانیہ قائم کرنا کیسا ہے؟
پھر شک نہیں کہ ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک سب سنن رواتب ( مؤکدہ سنتیں) تہجد سے اہم و آ ک ہیں۔ تو تہجد جماعت کے کمتر از کمتر از کمترسے کمتر پانچویں درجہ میں واقع ہے سب سے آکد جماعت پھر سنت فجر پھر قبلیہ ظہر پھر باقی رواتب پھر تہجد و غیر وسنن ونوافل، اور دوسرے قول پر تو کہیں ساتویں درجے میں جا کر پڑے گا کہ سب سے اقوی جماعت پھر سنت فجر پھر سنت مغرب پھر بعد یہ ظہر پھر بعد یہ عشاء پھر قبلیہ ظہر پھر تہجد و غیر ہا۔ پس تہجد کوسنت ٹھہرا کر بھی جماعت سے افضل کیا، برابر کہنے کی بھی اصلاً کوئی راہ نہیں، نہ کہ مستحب مان کر ۔ اگر کہئے یہاں کلام جماعت اولی میں ہے کہ سوال میں اس کی تصریح موجود اور واجب یا اس اعلی درجہ کی مؤکد مطلق جماعت ہے نہ خاص جماعت اولی بلکہ وہ صرف افضل واولی اور فضل تہجد اس سے اعظم واعلی تو حفظ تسجد کے لئے ترک اولی جائز و روا۔
( جواب اس کا یہ ہے کہ )
نہ احادیث حضور پر نور سید الا نام علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام اس کے مساعد ( احادیث اس بات کی مدد کرنے والی نہیں ) ، نہ کلمات و روایات علمائے کرام و فقہائے عظام مو یدو شاہد ، گر ایسا ہو تو بے عذر فوت تہجد وغیرہ بھلے چنگے بیٹھے بٹھائے بھی جماعت اولی قصد ا فوت کر دینا جائز ور وا ہو جبکہ ایک آدمی اپنے ساتھ جماعت کے لئے حاضر و مہیا ہو کہ آخر کچھ گناہ نہ کیا صرف ایک اولویت ترک کی جس میں حکم کراہت بھی نہیں۔ معاذ اللہ مسلمان اگر اس پر عمل کریں تو امر جماعت میں کسی قدر تفرقہ شنیعہ واقع ہوتا ہے وجوب جان کر ترک پر سخت سخت وعید یں سن کر تو بہت لوگ کسل و کاہلی کر جاتے ہیں کاش یہ سن پائیں کہ جماعت اولی کی حاضری شرعاً کچھ ضرور نہیں ایک بہتر بات ہے کی کی نہ کی نہ کی تو ابھی جو رہا سہا انتظام ہے سب درہم برہم ہوا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:امام کی غیر موجودگی میں کسی اور کو امام بنانا کیسا؟
لوگ مزے سے اذان سنیں اور اپنے لہو و لعب میں مشغول رہیں کہ جلدی کیا ہے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ بنائیں گے، کیا ایسی ہی متفرق بے نظم جماعتوں کی طرف حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہو سلم نے بلایا، کیا انہیں کے ترک پر سخت سخت جگر شگاف وعیدوں کا حکم سنایا ! حاش لله ثم حاش اللہ!ذ را نگاه انصاف در کار کہ یہ قصداً تفریق جماعت و تقلیل حضار کس قدر مقاصد شرع سے دور اور نورانیت حق و صواب سے بعید و مہجور ہے نہیں نہیں بلکہ یقینا و جوب و تا کد مذکور، خاص جماعت اولی کے لئے منظور اور وہی صد راول سے معہود، اور وہی احادیث و عید علی الترک میں مقصود ، اور زنہار زنہار ہرگز جائز نہیں کہ بے عذر مقبول شرعی جماعت ثانیہ کے بھروسے پر جماعت اولی قصداً چھوڑ دیجئے
اور داعی الہی کی اجابت نہ کیجئے، جماعت ثانیہ کی تشریع ( مشردع ہونا ) اس غرض سے ہے کہ احیانا ( کبھی کبھی ) بعض مسلمین کسی عذر صحیح مثل مدافعت اخبثین ( پیشاب پاخانہ کے شدت ) یا حاجت طعام وغیر ہا کے باعث جماعت اولی سے رہ جائیں وہ برکت جماعت سے مطلقاً محرومی نہ پائیں بے اعلان و تداعی ( بغیر اذان کے ) محراب سے جدا ایک گوشے میں جماعت کر لیں نہ کہ اذان ہوتی رہے داعی الہی پکارا کرے جماعت اولی ہوا کرے ( یہ ) مزے سے گھر میں بیٹھے باتیں بنائیں یا پاؤں پھیلا کر آرام فرما ئیں کہ عجلت کیا ہے ہم اور کرلیں گے یہ قطعا یقینا بدعت سیہ شنیعہ ہے ۔ (اس کے بعد امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے جماعت اولی کے وجوب پر متعدد دلائل دیئے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 91 تا 100

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 03, Fatwa 84
مزید پڑھیں:بغیر اذان واقامت کے محراب سے ہٹ کر جماعت ثانیہ قائم کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top