:سوال
مونگیر میں 29رمضان کو با وجود صفائے مطلع چاند نظر نہ آیا مگر کلکتہ سے بذریعہ تار برقی خبر آئی کہ یہاں 29 رمضان چاند دیکھا گیا بعد اس کے یہاں کے ایک رئیس نے منع اور چند آدمیوں کے روزے توڑ ڈالے مگر کسی ذی علم نے ان کی موافقت نہ کی ان اشخاص کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟
:جواب
تار کی خبر شرعا محض نامعتبر ۔۔۔ اس کی بناء پر افطار محض نا جائز واقع ہوئی اور اشخاص مذکورین بیشک مرتکب گناہ ہوئے اگر چہ بعد کو تحقیق ہو جائے کہ اس دن واقعی عید ہی تھی کہ جب تک انھوں نے روزے توڑے اصلاً ثبوت شرعی نہ تھا اور اُنھوں نے بے اذن شرعی افطار پر اقدام کیا اور یہ قطعاً گناہ ہے۔ شرع مطہر نے صوم و افطار کورویت پر معلق فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
(صومو الرؤيته وأفطر والرؤيته)
ترجمه: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا چاند دیکھنے پر روزہ رکھوار چاند دیکھنے پر عید کرو۔
صحیح بخاری ج 1 می 256 ، قدیمی کتب خانہ کراچی
انہوں نے بے ثبوت رؤیت عید کر لی اور حکم احکم حاکم اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مخالفت کی۔ پھر اگر طرق مقبولہ شرع سے ثابت ہو جائے کہ وہ خبر سچی اور عید واقعی تھی تو ان پر اس روزے کی قضا نہیں کہ تحقیق ہوا وہ دن روزے کا نہ تھا۔
نظیر اس کی یہ ہے کہ ابھی غروب شمس محقق نہ ہوا اور کس شخص نے جزافا ( اندازے سے ) روزہ کھول لیا، یہ امر سے روانہ تھا، لیکن اگر بعد کو ثابت ہو کہ فی الواقع اُس وقت آفتاب ڈوب ہو چکا تھا تو روزے کی قضا نہیں کہ ظاہر ہوا کہ وقوع افطار اپنے محل میں تھا۔ اور اگر منکشف ہو کہ خبر غلط تھی اور وہ دن رمضان کا تھا یا کچھ تحقیق نہ ہو تو بے شک اس روزے کی قضا لازم ہے، تقدیر اول پر تو وجہ واضح اور بر تقدیر ثانی رمضان کا آنا یقینی تھا اور اُس کا جانا شرعاً ثابت نہ ہوا، تو وہ دن عند الشرع رمضان ہی کا تھا کہ شرع نے عدم رؤیت میں تمھیں دن پورے کا مہینہ رکھا ہے۔
نظیر اس کی یہ ہے کہ بے تحقیق غروب افطار کرلیا پھر ثابت ہوا کہ آفتاب باقی تھایا کچھ نہ کھلا دونوں حالت میں قضا ہے۔ کفارہ کسی تقدیر پر ہیں کہ آخر انہوں نے اپنے نزدیک عید ہی جان کر روزے توڑے اور وہ خبریں اگر چہ شرعا نا مقبول ہیں۔ مگر ان عامیوں کے لیے مورث ظن بلکہ ان کے گمان میں موجب یقین ہو چکی تھیں تو اُن کی طرف سے جنایت کا ملہ نہ پائی گئی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 352 تا 357