:سوال
دینی یا دنیوی طلبہ سے غیر حاضری کرنے پر مالی جرمانہ لینا کیسا ہے؟
:جواب
تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔
( پھر اس کے جواز کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) ہاں وہ طلبہ جن کو وظیفہ دیا جاتا ہے ان کے وظیفہ سے وضع کر لینا جائز ہے یاجو طلبہ فیس نہیں دیتے جس روز جماعت میں حاضر نہ ہوں دوسرے روز ان سے کہا جائے کل تم نے جماعت قضا کی آج بغیر اتنی فیس دیے تم کو سبق نہ دیا جائیگا اور جو ماہوار فیس دیتے ہیں اس مہینے تو ان سے کچھ نہیں کہا جا سکتا دوسرے مہینے کے شروع پر ان سے کہا جائے کہ گزشتہ مہینے میں تم نے اتنے جماعت قضا کی آئندہ مہینے تمہیں تعلیم نہ دی جائے گی جب تک اس قدر زائد فیس نہ داخل کرو
یا یہ سورت ممکن ہے کہ ہر مہینے کے شروع میں طلبہ کو کوئی خفیف قیمت کی چیز مثلا قلم یا تھوڑی سی روشنائی یا کاغذ تقسیم کیا جائے اور یہ تقسیم بطور بیع ہو اس قیمت کو جو انتہائی جرمانہ قضائے جماعت کا ان کے ذمے ہو سکے مثلا یہ قلم سات روپے کو ہم نے تمہارے ہاتھ بیع کیا اور ان سے کہہ دیا جائے کہ یہ بیع قطعی ہے اس میں کوئی شرط نہیں ہم اس سے جدا ایک وعدہ احسانی تم سے کرتے ہیں کہ اگر تم نے اس مہینے میں بلا عزر صحیح شرعی کوئی جماعت قضا نہ کی تو سر ماہ پر یہ زرثمن تمام و کمال تمہیں معاف کر دیں گے اس صورت میں بھی قضائے جماعت کی حالت میں وہ ثمن کل یا بعض ان سے وصول کر لینا جائز ہوگا
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 111