:سوال
اگر کوئی ایسی حدیث ہو کہ اس کی سند کسی قابل نہ ہو مگر اس میں جو بات مذکور ہو وہ تجربہ سے ثابت ہو تو کیا وہ فضائل میں معتبر ہوگی ؟
:جواب
بالفرض اگر ایسی جگہ ضعف سند ایسی ہی حد پر ہو کہ اصلا قابل اعتماد نہ رہے مگر جو بات اس میں مذکور ہوئی وہ علما وصلحا کے تجربہ میں آچکی تو علمائے کرام اس تجربہ ہی کوسند کافی سمجھتے ہیں کہ آخر سند کذب واقعی کومستلزم نہ تھا۔ (امام)حاکم نے عمر بن( ہارون بلغی)( کی سند سے ) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے نماز قضائے حاجت کیلئے ایک ترکیب عجیب مرفوعاً روایت کی جس کے آخر میں ہے ولا تعلموها السفهاء فانه يدعون بها فيستجابوں بیوقوفوں کو یہ نماز سکھاؤ کہ وہ اس کے ذریعہ سے جو چاہیں گے مانگ بیٹھیں گے اور قبول ہوگی ۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
ائمہ جرح و تعدیل نے عمر بن ہارون کو سخت شدید الطعن متروک بلکہ متہم بالکذب تک کہا۔ اس کے باوجود ) مستدرک میں تھا احمد بن حرب نے کہا میں نے اس نماز کو آزمایا حق پایا ، ابراہیم بن علی دیبلی نے کہا میں نے آزما یا حق پایا ، ہم سے ابوز کریا نے کہا میں نے آزما یا حق پایا، حاکم کہتے ہیں خود میں نے آزمایا تو حق پایا۔ لہذا امام حافظ منذری نے فرمایا “الاعتماد في مثل هذا على التجربة لا على الاسناد ” ( ایسی جگہ اعتماد تجربه پر ہوتا ہے نہ کہ اسناد پر ) ۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ کے حوالے ) سے امام اجل سیدی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ الشریف کا ارشاد گذرا کہ میں نے صحت حدیث کو اس جوان کی صحت کشف سے پہچانا یعنی جب اس کے کشف سے معلوم ہوا کہ حدیث میں جو وعدہ آیا تھا ٹھیک اُترا، معلوم ہوا کہ حدیث صحیح ہے۔ اب صدر رسالہ (رسالہ کے شروع ) میں امام سخاوی کے بقول دیکھ لیجئے کہ اس تقبیل ابہامین (انگوٹھے چومنے) کےکتنے تجربے علما و صلحا سے منقول ہوئے ہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 551