:سوال
شوہر میرا قرضدار ہے اور میرے پاس زیور ہے زکوۃ کے لائق ، اور میرا شوہر کا معاملہ ایک ہے، اور میرے پاس جو کچھ روپیہ تھا شوہر کے قرضہ میں دے دیا یہ سمجھ کر کہ میرا اور اُن کا معاملہ واحد ہے بلکہ شوہر کو بھی بعد میں معلوم ہوا، اب میرا نہ شوہر تقاضاہے نہ یہ گفتگو ہوئی کہ میں معاف کر دیا بلکہ اپنا اُن کو معا ملہ ایک سمجھ کر قرضہ میں دے دیا آب جوزیور ہے وہ قرضہ سے بہت کم ہے لیکن زکوٰۃ کے لائق ہے، اس صورت میں زکوۃ دینا فرض ہے یا نہیں؟ اور خرچ بال بچوں کا بہت ہے آمد بہت کم ہے، اگر زکوۃ فرض ہو تو کچھ ایسی صورت بتائے کہ جس میں زکوۃ بھی ادا ہو جائے اور خرچ کو تکلیف نہ ہو۔
:جواب
عورت اور شوہر کا معاملہ دنیا کے اعتبار سے کتنا ہی ایک ہو مگر اللہ عز وجل کے حکم میں وہ جدا جدا ہیں، جب تمھارے پاس زیور ز کوۃ کے قابل ہے اور قرض تم پر نہیں شوہر پر ہے تو تم پر زکوۃ ضرور واجب ہے اور ہر سال تمام پر زیور کے سوا جو روپیہ یا اور زکوۃ کی کوئی چیز تمھاری اپنی ملک میں تھی اس پر بھی زکوۃ واجب ہوئی
جو روپے تم نے بغیر شوہر کے کہے بطور خودان کے قرضہ میں دے دیا وہ تمھارا احسان سمجھا جائے گا، اس کا مطالبہ شوہر سے نہیں ہو سکتا، بال بچوں کا خرچ باپ کے ذمہ ہے تمھارے ذمہ نہیں ، زکوۃ دینے سے خرچ کی تکلیف نہ سمجھو بلکہ اس کا نہ دینا ہی تکلیف کا باعث ہوتا ہے نحوست اور بے برکتی لاتا ہے اور زکوۃ دینے سے مال بڑھتا ہے اللہ تعالی برکت و فراغت دیتا ہے، قرآن مجید میں اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ سچا اور اس کا وعدہ سچا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 168