:سوال
صف میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا مس نہ کرنا بلکہ درمیان میں فرجہ چھوڑ دینا کیسا ہے؟
: جواب
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تکمیل صف کا نہایت اہتمام فرماتے اور اس میں کسی جگہ فرجہ چھوڑ نے کوسخت نا پسند فرماتے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو ارشاد ہوتا” اقیموا صفوفكم وتراصوا فاني اركم من وراء ظهری” اپنی صفیں سیدھی کرو اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہو کہ بیشک میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔
(صحیح البخاری، ج1، ص 100 ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
دوسری حدیث میں ہے” سد و الخلل فان الشيطان يدخل فيما بينكم بمنزلة الحذف ” یعنی صف چھدری نہ رکھو کہ شیطان بھیڑ کے بچے کی وضع پر اس چھوٹی ہوئی جگہ میں داخل ہوتا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل ،ج 5 ،ص 262 ،دار الفکر، بیروت)
ابوداؤود طیالسی کی روایت میں کیوں ہے” اقیموا صفوفکم وتراصوا فوالذي نفسي بيده انى لارى الشياطين بين صفوفكم كانها غنم عفر” اپنی صفیں سیدھی کرو اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک میں شیاطین کو تمہاری صفوں میں دیکھتا ہوں گو یاوہ بکریاں ہیں بھکسے رنگ کی۔
( مسند ابوداؤد الطیالسی، ص 282 ، دار المعرفۃ ،بیروت)
مزید پڑھیں:اعادہ نماز کی جماعت میں کوئی عام شخص شامل ہو سکتا ہے؟
فائدہ: بھیڑ بکری کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اکثر دیکھا ہے کہ جہاں چند آدمی کھڑے دیکھے اور دو شخصوں کے بیچ میں کچھ فاصلہ پایا وہ اس فرجہ میں داخل ہو کر ادھر سے ادھر نکلتے ہیں یوں ہی شیطان جب صف میں جگہ خالی پاتا ہ دلوں میں وسوسہ ڈالنے کوآ گھستا ہے اور بھکسے رنگ کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ حجاز کی بکریاں اکثر اس رنگ کی ہیں یا شیاطین اس وقت اسی شکل پر متشکل ہوئے۔
اس کے بعد امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے احادیث وفقہ سے کچھ ایسے احکام بیان فرمائے جن سے پتا چلتا کہ صف کارخنہ ( فرجہ ) بند کرنا شرعاً کس قدر مطلوب ہے، فرماتے ہیں ) اگر اگلی صف میں کچھ فرجہ رہ گیا اور نیتیں باندھ لیں اب کوئی مسلمان آیا وہ اس فرجہ میں کھڑا ہونا چاہتا ہے
مقتدیوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے تو انہیں حکم ہے کہ دب جائیں اور جگہ دے دیں تا کہ صف بھر جائے۔ اور نہایت یہ کہ اگر اگلی صف والوں نے فرجہ چھوڑا اور صف دوم نے بھی اس کا خیال نہ کیا مگر اپنی صف گھنی کر لی اور نیتیں بندھ گئیں حالانکہ ان پر لازم تھا کہ صف اول والوں نے بے اعتدالی کی تھی تو یہ پہلے اس کی تکمیل کر کے دوسری صنف باندھتے، اب ایک شخص آیا اور اس نے صف اول کا رخنہ دیکھا اسے اجازت ہے کہ اس دوسری صف کو چیر کر جائے اور فرجہ بھر دے کہ صنف دوم بے خیالی کر کے آپ تقصیر وار ہے اور اس کا چیر نا روا۔
مزید پڑھیں:مسبوق جہری نماز میں قرات جہری کرے گا یا نہیں؟
یونہی اس رخنہ بندی کے لئے پچھلی صف کے نمازیوں کے آگے گزرنا جائز ہے کہ انہوں نے خود اس امر عظیم میں بے پروائی کر کے جس کا شرع میں اس در اس درجہ اہتمام تھا اپنی حرمت ساقط کر دی۔ حدیث میں ہے” من نظر الى فرجة في صف فليسدها بنفسه فان لم يفعل فمر مار فليتخط على رقبته فأنه لا حرمة له ” یعنی جسے صف میں فرجہ نظر آئے وہ خود وہاں کھڑا ہو کر اسے بند کر دے اگر اس نے نہ کیا اور دوسرا آیا تو وہ اس کی گردن پر قدم رکھ کر چلا جائے کہ اس کے لئے کوئی حرمت نہ رہی۔
(المعجم الکبیر،ج 11 ،ص 105 ،مکتبہ فیصلہ ،بیروت )
یونہی اگرصف دوم میں کوئی شخص نیت باندھ چکا اس کے بعد اسے صف اول کا رخنہ نظر آیا تو اجازت ہے کہ عین نماز کی حالت میں چلے اور جا کر فرجہ بند کر دے کہ یہ مشی قلیل ( تھوڑا چلنا ) حکم شرع کے امتشال ( پیروی ) کو واقع ہوئی ، ہاں دو صف کےفاصلہ سے نہ جائے کہ مشی کثیر ہو جائے گی۔ یہ احکام فقہ و حدیث با علی ندا منادی ( اونچی آواز سے ندا کر رہے ہیں ) کہ وصل صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم ضروریات سے ہے اور ترک فرجہ ممنوع و نا جائز ، یہاں تک کہ اس کے دفع کو نمازی کے سامنے گزر جانے کی اجازت ہوئی جس کی بابت حدیثوں میں سخت نہی وار د تھی سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” لو يعلم الماربين يدى المصلى ماذا عليه لكان ان يقف أربعين خير اله من أن يمر بین یدیہ” اگر نمازی کے سامنے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو چالیس برس کھڑا رہنا اس گزر جانے سے اس کے حق میں بہتر تھا۔
(صحیح البخاری ،ج 1 ،ص 72 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی )
حافظ نے بلوغ المرام میں کہا کہ مسند بزار میں ایک اور سند سے مروی الفاظ یہ ہیں ”اربعین خریفاً ” چالیس سال۔ میں کہتا ہوں احادیث آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 41 تا 47