:سوال
جو شخص فرضوں میں سورہ اقر آپڑھے اور اس سورت کے آخر میں سجدہ ہے، امام اگر رکوع میں نیت کرے تو مقتدی کا سجدہ تلاوت ادا نہ ہوگا، آیا یوں جائز ہوگا کہ سورت ختم کر کے سجدہ کرے؟ پھر کھڑا ہو کر رکوع کرے یا تین سمجھے کرے؟
:جواب
فی الواقع اگر صورت مستفسرہ میں امام نے فورا رکوع کیا اور رکوع میں نیت سجدہ تلاوت کر لی تو اس کا سجدہ تو ادا ہو گیا مگر جن مقتدیوں نے نیت نہ کی ان کا سجدہ ایک مذہب علماء پر ادانہ ہو گا۔
نہ وہ آپ جدا گانہ سجدہ کر سکیں گے للزوم خلاف الامام ( کیونکہ اس میں امام کی مخالفت لازم آرہی ہے ) نہ سجدہ نماز انہیں سجدہ تلاوت سے کافی ہوگا اگر چہ وہ اس میں سجدہ تلاوت کی نیت بھی کر لیں لانه لما نواها الامام في ركوعه تعين
لها ( کیونکہ جب امام نے اس کی ادائیگی کی رکوع میں نیت کی تو وہی اس کے لئے متعین ہو گیا) بلکہ اس کی سبیل ( یہ ) ہوگی کہ بعد سلام امام سجدہ تلاوت کریں پھر یہ سجدہ رافع قعدہ ہوگا تو فرض ہوگا کہ قعدہ کا اعادہ کریں، نہ کریں گے تو نماز جاتی رہے گی۔ جب یہ دقتیں ہیں تو ایسی حالت خصوصاً اس زمانہ جہالت میں رکوع نماز سے سجدہ تلاوت ادا کر لینا مقتدیوں کو فتنے میں ڈالنا ہے لہذا امام کو اس سے بچنا چاہئے۔
اور اگر یہ کرتا ہے کہ سورت ختم کر کے فورا سجدہ تلاوت کرے اور اس کے بعد کھڑا ہو کر معارکوع میں سجدہ چلا جائے تو سجدہ تو سب کا ادا ہو جائے گا مگر یہ فعل مکروہ ہوگا کہ سجود تلاوت و رکوع میں فصل نہ کیا۔
مزید پڑھیں:سجدہ تلاوت وقت تلاوت معا ادا کرے یا جس وقت چاہے؟
بس اگر تلاوت کے لئے سجدہ مستقلہ ہی کرنا چاہے تو اس کا یہ طریقہ اسلم کہ سجدہ سے اٹھ کر دوسری سورت مثلاً صورت مستفسرہ میں سورہ قدر یا تلاوت والنجم میں سورہ قمر کے اول سے تین آیتیں خواہ زیادہ پڑھ کر رکوع کرے اس میں اگر چہ ایک رکعت میں دو سورتوں سے پڑھنا ہو گا اور فرضوں میں اس کا ترک اولی مگر سورتوں میں فصل نہ ہو تو مکروہ نہیں۔ بخلاف بعد سجود تلاوت بلا فصل رکوع میں جانے کے کہ یہ مکروہ ہے تو اس کے دفع کو اُسے گوارا کیا جائے گا۔ ایک طریقہ تو یہ تھا اور ان سب سے بہتر و خوش تر اور ہر خدشہ سے سالم و محفوظ تر یہ ہے کہ صورت مستفسرہ میں تلاوت کے لئے مستقل سجدہ اصلا نہ کرے بلکہ آیت سجدہ پڑھتے ہی معا نماز کا رکوع بجالائے اور اس میں نیت سجدہ نہ کرے پھر قومہ کے بعد فوراً نماز کے سجدہ اولی میں جائے اور اس میں نیت سجدہ کرے
اب نہ کوئی قباحت یا کراہت یا تقویت فضیلت لازم ہوئی نہ مقتدیوں پر کچھ وقت آئی اگر چہ انھوں نے کہیں نیت سجدہ تلاوت کی نہ کی ہو کہ سجدہ نماز جب فی الفور کیا جائے تو اس سے سجدہ تلاوت خود بخو دادا ہو جاتا ہے اگر چہ نیت نہ ہو۔ اور یہیں سے ظاہر کہ اس محمود و محفوظ صورت میں اگر خود امام بھی اصلاً نیت سجدہ تلاوت نہ کرے تا ہم سب کا سجدہ ادا ہو جائے گا اور امام و مقتدی ہر وقت سے امان میں رہیں گے بلکہ ہمارے علماء بحالت کثرت جماعت یا اخفائے قرآت اسی طریقہ کو مطلقاً افضل ٹھہراتے ہیں کہ آیت سجدہ پڑھ کر فور نماز کے رکوع و سجود کرلے تاکہ تلاوت کے لئے جدا سجدے کی حاجت نہ پڑھے جس کے باعث جہاں کو اکثر التباس ہو جاتا ہے۔
میں کہتا ہوں کثرت جماعت کی قید اس نظر سے ہے کہ جب ہجوم ہو گا تو عوام بھی ضرور ہوں گے، اب ہمارے زمانہ میں کہ عام لوگ عوام ہی عوام ہیں کثرت وقلت سب یکساں ، تو سجود مستقل سے مطلقا یہی صورت انسب واولی ، مگر یہ کہ امام جانتا ہو کہ اس وقت میرے پیچھے صرف وہی لوگ ہیں جو دینی مسائل کا علم رکھتے ہیں لیکن اس قدر ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ صورت اسی حالت میں بن پڑے گی کہ آیت سجدہ کے بعد رکوع وسجود نماز میں دیرینہ کی فورا بجالایا ورنہ اگر آیت سجدہ پڑھ کر تین چار آیتیں اور پڑھ لیں تو اب سجدہ تلاوت ہرگز بے خاص مستقل سجدے ہی کے ادانہ ہوگا اور تاخیر کا گناہ ہوا وہ علاوہ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 234