رکوع اور سجود میں دونوں پاؤں کے ٹخنے ملانا
:سوال
زید نماز میں بحالت رکوع و سجود الصاق کعبین کرتا ( رکوع اور سجود میں اپنے دونوں پاؤں کے ٹخنے آپس میں ملاتا ) ہے عمرو کہتا ہے کہ یہ فعل وہابیوں کا ہے حرام ہے اور واجب الترک ہے۔ حنفی لوگ اس فعل کو جائز سمجھیں یا مکروہ تحریمی؟
:جواب
حاشاللہ نہ فعل وہابیہ کا ہے نہ حرام نہ واجب الترک بلکہ رکوع میں الصاق کعبین غنیۃشرح منیہ و جامع الرموز ومحتبی شرح قدوری و در مختار و حاشیہ حموی وفتح اللہ المعین و طحطاوی علی مراقی الفلاح و علی در مختار و غیر ہا میں سنت لکھا۔ اور سجدہ میں الصاق کعبین کو علامہ سید ابو مسعود الا زہری نے حواشی کنز میں سنت بتایا۔ ہاں دربارہ سجود یہ صرف انھیں کا بیان ہے اگر چہ علامہ طحطاوی نے اُن کا اتباع کیا۔ اور بعض متاخرین علما نے دربارہ رکوع بھی سنیت میں کلام کیا۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
وله في ذلك رسالة عندى واقصى ما يقال هنا ان عامة كتب المذهب خالية عنه وانما انه بينه الزاهدى والباقون انما تبعوه وقد بينت في كتابي كفل الفقيه الفاهم ان الغرابة لا تندفع بكثرة الناقلين اذا لم يكن مرجعهم الا واحد الاسيما مثل الزاهدی ، ترجمہ: اس مسئلہ سے متعلق میرے پاس ایک رسالہ ہے، زیادہ سے زیادہ جو کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عامہ کتب مذہب اس سے خالی ہیں صرف زاہدی نے اسے بیان کیا اور باقی فقہاء نے ان کی اتباع کی ہے اور میں نے اپنی کتاب ”کفل الفقیہ الفاھم ”میں یہ بیان کیاہے کہ کثرت ناقلین کی وجہ سے غرابت ختم نہیں ہوجاتی جبکہ ان سب کا مرجع ایک ہو خصوصاً زاہدی جیسا آدمی ۔ 
مزید پڑھیں:اکیلے نمازی کا محراب میں کھڑے ہونے میں حرج نہیں
بہر حال اسے حرام و فعل وہابیہ کہنا نادانی ہے۔ الصاق کعبین کے بارے میں ملفوظات میں ہے “عرض در مختارکبیری صغیری وغیرہ میں لکھا ہےکہ رکوع میں دونوں ٹخنوں کو ملانا سنت ہے۔ ارشاد لم یثبت کہیں ثابت نہیں دس بارہ کتابوں میں یہ مئسلہ لکھا ہے اور سب کا منتہی زاہدی ہے۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھے خیال ہے کہ بہار شریعت میں اسی در مختار کے حوالہ دے میں نے الصاق کو سنن میں شمار کیا تھا مگر علی حضرت قبلہ نے اسے نکال دیا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 180

READ MORE  غیر توتلے کی توتلے کے پیچھے نماز کیسی ہے؟
مزید پڑھیں:نماز میں دونوں سجدے فرض ہیں یا ایک
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top