:سوال
کتاب “تركيب الصلواة “ میں لکھا ہے کہ ایک شخص تین بجے رات سے جاگتا رہا اور وقت نماز سو گیا اور آفتاب نکل آیا تو وہ فجر کی نماز پڑھے ثو اب اس کو ادا کا ملے گا اور وقت میں قضا کا لفظ نہ کہے۔ کیا یہ درست ہے؟
:جواب
اس نماز کے قضا ہو جانے میں شک نہیں کہ نماز کے لئے شرعا اوقات معین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان الصلوة كانت على المومنين – کتابا ہو قو تا ترجمه: بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔
(پ 5 سورة النساء، آیت 103)
قضا ہو جانے کے یہی معنی ہیں کہ شرعاً جو وقت مقرر فرمایا گیا تھا وہ جاتا رہے۔ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں: ((ان للصلوة اولا واخرا و ان اول وقت الفجر حين يطلع الفجروان الخروقتها حين تطلع الشمس)) ترجمہ: بیشک ہر نماز کے لئے اول واخر ہے اور بیشک نماز صبح کا اول وقت طلوع فجر کے وقت ہے اور اس کا آخر طلوع شمس پر ہے۔
( جامع الترندی ، ج 1 ص 22 امین کمپنی، ویلی)
وقت میں قضا کا لفظ کہنے کی تو کوئی حاجت اس میں بھی نہیں جبکہ جیتے جاگتے قصد أ معاذ اللہ قضا کر دی ہو بلکہ ہمارے اس بھی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ قضا بہ نیت ادا اورا دا بہ نیت قضا دونوں صیح ہیں مگر اس سے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں جبکہ وہ یقینا قضا ہے تو قضا کہنے میں کیا مضائقہ رکھا ہے، رہا ادا کا ثواب ملنا یہ اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے اگر وہ جانے گا کہ اس نے اپنی جانب سے کوئی تقصیر نہ کی صبح تک جاگنے کے قصد سے بیٹھا تھا اور بے اختیار آنکھ لگ گئی تو ضرور اس پر گناہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((اما انه ليس في النوم تفريط انما التفريط على من لم يصل الصلوة حتى يجي وقت الصلوة الانحری)) ترجمہ: سوجانے کی وجہ سے نماز رہ گئی تو گناہ نہیں لیکن جس شخص نے جان بوجھ کر نماز نہ پڑھی حتی کہ دوسری نماز کا وقت آ گیا تو یقینا گنہ گار ہوگا۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ص 239 نور محمد اصح المطابع ، کراچی)
جب اس کی جانب سے کوئی تقصیر نہیں تو امید یہی ہے کہ ثواب نماز کامل عطا ہو مگر اس سے وہ نماز قضا سے خارج نہ ہو جائے گی ثواب کا مدار نیت پر ہے، بے کئے ثواب محض نیت پرمل جاتا ہے۔ صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ جو نماز کے قصد پر چلا اور جماعت ہو چکی جماعت کا ثواب پائے گا لیکن اس سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ جماعت فوت نہ ہوئی وهذا ظاهر جدا ( یہ بالکل واضح ہے)۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 158 تا 162