:سوال
ایک آفیسر کئی شہروں کے دورہ کے لئے نکلا، وہ جاتے ہوئے اور واپسی پر پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا ؟
: جواب
دورہ غالبا جس طور پر ہوتا ہے کہ آٹھ آٹھ دس دس کوس نیت سے چلتے اور ایک جگہ پہنچ کر پھر دوسرے کو روانہ ہوتے ہیں یہ حالت سفر نہیں اگر چہ اس میں سوکوس کا فاصلہ ہو جائے ، یونہی اگر اس موضع بعید سے واپسی بھی اسی طریق دورہ ہو کہ یکے بعد دیگرے قریب قریب مقامات کے قصد سے چلتے ہوئے محل اقامت کے نزدیک آکر پلٹ آئیں تو اس رجوع میں بھی قصر نہیں، ہاں اگر جانے خواہ آنے کیسی محل اقامت بالخصوص ایسی جگہ کے عزم پر چلیں جو وہاں سے مدت سفر پر ہو تو سفر متحقق اور قصر واجب ہوگا، اسی طرح اگر دورہ کسی ایسے مقام پر ختم ہوا جہاں سے محل اقامت تین منزل ہے اب بخط مستقیم وہاں کو پلٹے تو بھی وہاں سے یہاں تک حالت سفر ہے۔ فتح القدیر میں ہے الخليفة ان كان انما قصد الطواف في ولايته فالا ظهرانه حينئذ غير مسافر حتى لا يقصر الصلوة في طوافه كالسائح حاکم وقت اپنی مملکت اپنی مملکت میں دورہ کرنے کی نیت سے سفر کرے تو وہ مسافر نہ ہو گاحتی کہ وہ سیاحت کرنے والے کی طرح نماز میں قصر نہیں کر سکتا۔
(فتح القدير ، ج 2 ص 26، مطبوعہ نوریہ رضویہ، سکھر )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 241