:سوال
زید کہتا ہے کہ صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جو چھت والا ہے اور صحن مسجد مسجد کا حصہ نہیں ہوتا، خارج مسجد اور فناء مسجد ہوتا ہے۔
:جواب
(امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے صحن مسجد کے جزء مسجد ہونے پر متعدد دلائل ذکر کئے، فرماتے ہیں )
:اولا
مسجد اس بقعہ (قطعہ زمین ) کا نام ہے جو بغرض نماز پنجگانہ وقف خالص کیا گیا۔۔۔ یہ تعریف بالیقین صحن کو بھی شامل، اور عمارات و بنا یا سقف وغیرہ ہرگز اس کی ماہیت میں داخل نہیں یہاں تک کہ اگر عمارت اصلا نہ ہو صرف ایک چبوترہ یا
محدود میدان نماز کے لئے وقف کر دیں قطعاً مسجد ہو جائے گا اور تمام احکام مسجد کا استحقاق پائے گا ۔۔۔۔۔
پھر مسقف ( چھت والے ) و غیر مسقف (غیر چھت والے) میں فرق کرنا اسے مسجد اسے فناء مسجد گھرانا محض بے معنی۔
مزید پڑھیں:موذی، بد مذہب اور بد بودار کو مسجد میں آنے سے روکنا کیسا؟
: ثانيا
ہر عاقل جانتا ہے کہ مسجد و معبد ہو یا مسکن و منزل ہر مکان کو بلحاظ اختلاف موسم دو حصوں پر تقسیم کرنا عادات مطردہ بنی نوع انسان سے ہے جس پر ۔ ۔ تمام اعصار ( زمانوں) وامصار (شہروں) کے لوگ اتفاق کئے ہوئے ہیں ایک پارہ (حصہ) مسقف چھت والا) کرتے ہیں کہ برف و بارش و آفتاب سے بچائے ، دوسرا کھلا رکھتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھنے، ہوا لینے گرمی سے بچنے کے کام آئے ، زبان عرب میں اول کوشتوی ( سردیوں والا حصہ ) کہتے ہیں اور دوم کو صیفی ( گرمیوں والا حصہ) ۔
یہ دونوں ٹکڑے قطعاً اس معبد ( عبادت گاہ) یا منزل کے یکساں دو جزء ہوتے ہیں جن کے باعث وہ مکان ہر موسم میں کام کا ہوتا ہے اور بالیقین مساجد میں صحن رکھنے سے بھی واقفین کی یہی غرض ہوتی ہے ورنہ اگر صرف شتوی یعنی مسقف کو مسجد اور صیفی یعنی صحن کو خارج از مسجد ٹھہرائے تو کیا واقفین ( وقف کرنے والوں) نے مسجد صرف موسم سرما و عصر ین گرما ( گرمیوں کی ظہر و عصر ) کے لئے بنائی تھی کہ ان اوقات میں تو نماز مسجد میں ہو باقی زمانوں میں نماز و اعتکاف کے لئے مسجد نہ ملے یا ان کا مقصود یہ جبر کرنا تھا کیسی ہی جس و حرارت کی شدت ہو مگر ہمیشہ مسلمان اسی بند مکان میں نماز پڑھیں، معتکف رہیں، ہوا اور راحت کا نام نہ لیں۔
یا انھیں دنیا کا حال معلوم نہ تھا کہ سال میں بہت اوقات ایسے آتے ہیں جن میں آدمی کو درجہ اندرونی میں مشغول نماز و تراویح و اعتکاف ہونا در کنار دم بھر کو جانا نا گوار ہوتا ہے، اور جب کچھ نہیں تو بالجزم ( یقینا ) ثابت کہ جس طرح انھوں نے اپنے چین کے لئے مکان سکونت میں صحن و دالان دونوں درجے رکھتے ہیں یونہی عام مسلمان کی عام اوقات میں آسائش و آرام کے لئے مسجد کو بھی انہی دو حصوں پر تقسیم کیا۔
مزید پڑھیں:صحن مسجد میں جنازہ پڑھنا یا آذان دینا کیسا؟
:ثالثا
اب نمازیوں سے پوچھئے آپ اذان سن کر گھر سے کس ارادہ پر چلتے ہیں، یہی کہ مسجد میں نماز پڑھیں گے یا کچھ اور ، قطعاً یہی جواب دیں گے کہ مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں، اب دیکھئے کہ وہ موسم گرما میں فجر و مغرب و عشاء کی نماز میں کہاں پڑھتے ہیں اور اُن کے حفاظ قرآن مجید کہاں سناتے ہیں اور اُن کےمعتکف کہاں بیٹھتے اور ذکر و عبادت میں مشغول رہتے ہیں، خو وہی کھل جائے گا کہ مسلمانوں نے صحن کو بھی مسجد سمجھا ہے یا نہیں ، تو مسجدیت صحن سے انکار اجماع کے خلاف۔
مزید پڑھیں:حوض کی فصیل فنائے مسجد ہے یا عین مسجد ؟
:رابعا
بلکہ غور کیجئے تو جو صاحب انکار رکھتے ہیں خود اُنہی کے افعال اُن کی خطا پر دال ( دلالت کر رہے ہیں )، اگر وہ مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہوں تو لا جرم موسم گرما میں عام مسلمانوں کی طرح صحن ہی پر پڑھتے ہوں گے پھر ان سے پوچھئے آپ گھر چھوڑ کر غیر مسجد میں نماز پڑھنے کیوں آئے ، اور جب یہ مسجد نہیں تو یہاں نماز پڑھنے میں کیا فضیلت سمجھی، فضیلت در کنار داعی الی اللہ( اللہ کی طرف دعوت دینے والے) کی اجابت کب کی ، اور حدیث
لا صلوة لجار المسجد الافي المسجد
” ترجمہ: مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ نہیں ہو سکتی۔
(مستدرک حاکم ج 1 ص 246 دار الفکر بیروت)
کی تعمیل کہاں ہوئی اور سنت عظیمہ جلیلہ کس واسطے چھوڑی۔
کیا کوئی ذی عقل مسلمان گوارا کرے گا کہ مکان چھوڑ کر آواز اذان سن کر نماز کو جائے اور مسجد ہوتے ساتے مسجد میں نہ پڑھے بلکہ اس کے حریم و حوالی میں نماز پڑھ کر چلا آئے، کیا اہل عقل ایسے شخص کو مجنون نہ کہیں گے، تو انکار والوں کا قول و فعل قطعاً متناقض ( آپس میں ٹکرا رہا ہے ، اگر یہ عذر کریں کہ جہاں امام نے پڑھی مجبوری ہمیں پڑھنی ہوئی ہے تو محض بیجا و نا معقول و نا قابل قبول ، آپ صاحبوں پر حق مسجد کی رعایت اتباع جماعت سے اہم واقدم تھی، جب آپ نے دیکھا کہ سب اہلِ جماعت مسجد چھوڑ کر غیر مسجد میں نماز پڑھتے ہیں آپ کو چاہئے تھا خود مسجد میں جا کر پڑھتے ، اگر کوئی مسلمان آپ کا ساتھ دیتا جماعت کرتے ورنہ تنہا ہی پڑھتے کہ حق مسجد سے ادا ہوتے ، یہاں تک کہ علما اس تنہا پڑھنے کو دوسری مسجد میں باجماعت پڑھنے سے افضل بتاتے ہیں نہ کہ غیرمسجد میں۔
مزید پڑھیں:متولی مسجد کا کسی کو نماز سے منع کرنے کا کیا حکم ہے؟
:خامساً
اگر وہ اپنے قول باطل پر اصرار کر کے اس فکر میں پڑیں کہ نماز محن مطلقاً بند کر دی جائے اور ہمیشہ ہر موسم، ہر وقت کی جماعت اندر ہی ہوا کرے، اور بالفرض اُن کی یہ بات خلق کو نما زصحن سے مانع آئے تو دیکھئے موسم گرما میں کتنی مسجد یں نماز و جماعت و تراویح و اعتکاف سے معطل محض ہوئی جاتی ہیں کہ لوگ جب صحن سے روکے جائیں گے اور اندر ان افعال کی بجا آوری سے بالطبع گھبرائیں گے، لاجرم مسجد کے آنے سے بازرہیں گے اور اگر ایک دو نے یہ ناحق و بے سبب کی سخت مصیبت گوارا بھی کر لی تو عام خلائق کا تنفر قطعی یقینی ، تو اس نزاع بیجا کا انجام معاذ اللہ مساجد کا ویران کرنا اور اُن میں ذکر و نماز سے بندگان خدا کو روکنا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے
ومن اظلم ممن منع مسجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعى في خرابها
و ترجمہ: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی مسجدوں کو ان میں نام خدا یاد کئے جانے سے روکے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔
پ 1 سورة البقرة، آیت (114)
اب صحن کو مسجد نہ ماننے والے غور کریں کہ کس کا قول افساد فی الدین تھا و لا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم
:سادساً
علماء ارشاد فرماتے ہیں کہ مسجد میں پیڑ بونا ممنوع ہے کہ اُس سے نماز کی جگہ رکے گی مگر جبکہ اس میں منفعت مسجد ہو اس طرح کہ زمین مسجد اس قدر گل (تر) ہو کہ ستون بوجہ شدت رطوبت نہ ٹھہرتے ہوں تو جذب تری کیلئے پیڑ ہوئے۔
جائیں کہ جڑیں پھیل کر زمین کی تم کھینچ لیں ۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ ستون مسجد مسقف ہی میں ہوتے ہیں اور پیڑ درجہ اندرونی میں نہیں ہوئے جاتے بلکہ سائے میں پرورش نہیں ہوتے معہذا جب تری کی وہ بیشتری کہ ستون نہیں ٹھہرتے تو ایسی رطوبت پھلواری وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے پودوں سے دفع نہیں ہو سکتی، نہ ان کی جڑیں اتنی پھیلیں کہ اطراف سے جذب کر لیں اور بڑے پیڑ اندر ہوئے جانا معقول نہیں تو واجب کہ اس سے مراد صحن مسجد میں ہوتا ہے اور اسے انھوں نے مسجد میں ہونا قراردیا، جب تو غرس فی المسجد کی صورت جواز میں رکھا، اور مثال ظہیر یہ نے تو اس معنی کو خوب واضح کر دیا، قطعاً معلوم کہ جامع بخارا نا مسقف نہیں ( بغیر چھت والی نہیں )، نہ زنہار اس کے درخت زیر سقف ( چھت کے نیچے )ہیں بلکہ یقیناً صحن میں بوئے گئے، اور اسی کو علمائے کرام نے غرس فی المسجد ( مسجد میں درخت بونا ) جانا۔
:سابعاً
علماء فرماتے ہیں دروازہ مسجد پر جود کا نیں ہیں فنائے مسجد ہیں کہ مسجد سے متصل ہیں ۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ جود کا نیں دروازہ پر ہیں صحن مسجد سے متصل ہیں نہ درجہ مسقفہ سے، تو لا جرم صحن مسجد مسجد ہے، اور یہیں سے ظاہر کہ صحن کو فنا کہنا محض غلط ہے اگر وہ فنائے مسجد ہوتا تو دکا نیں کہ اس سے متصل ہیں متصل به فنا ہوتیں ، نہ متصل بہ مسجد ، پھر
ن دکانوں کے فنا ٹھہرنے میں کلام ہوتا کہ فتاوہ ہے جو متصل یہ مسجد ہو نہ وہ کہ متصل به فنا ہو، ورنہ اس تعریف پر لزوم دور کے علاوہ متصل بالفنا بھی فناٹھہرے تو سارا شہر یالا اقل تمام محلہ فنائے مسجد قرار پائے کمالا یخفی(جیسا کہ مخفی نہیں )۔
اور یہ ا دعا کہ صحن وفنا کا مفہوم واحد جہل شدید ہے کہ کسی عاقل سے معقول نہیں، شاید یہ قائل ان دکانوں کو بھی صحن مسجد کہے گا۔
: ثامنا
انصاف کیجئے تو یہ خاص جزئی بھی یعنی صحن مسجد میں جنب کا جانا نا جائز ہونا کلمات علماء سے مستفاد ہو سکتا ہے، ائمہ فرماتے ہیں جب کو مسجد میں جانا جائز نہیں مگر جبکہ پانی کا چشمہ مسجد میں ہو اور اس کے سوا کہیں پانی نہ ملے تو تمیم کر کے لے آئے ۔۔ ظاہر ہے کہ علامہ بلاد میں عامہ مساجد جماعات مستقف ہوتی ہیں اور چشمۂ آب عادةً صحن ہی میں ہوتا ہے اور کلمات فقہاء امور عادیہ غالبہ ہی پر مبنی ہوتے ہیں، بہت نادر ہے کہ حصہ اندرونی میں چشمہ آب ہو، تو انھوں نے محسن ہی میں جنب کو جانے پر یہ احکام فرمائے ، ان کے سوا اور بہت وجوہ کثیرہ سے استنباط ممکن مگر بعد ان دلائل قاہرہ کے جو ابتدا زیر گوش سامعین ہوئے حاجت تطویل نہیں۔
:تاسعا
يا هذا (اے شخص) ان براہین ساطعہ کے بعد صحن مسجد کا جزء مسجد ہونا اجلی بدیہیات تھا جس پر اصلا تصریح کتب کی احتیاج بھی بلکہ جو اسے مسجد نہیں مانتا ہی محتاج تصریح و قطعی تھا اور ہرگز نہ دکھا سکتا نہ کبھی دکھا سکے، تاہم فقیر نے بطور تبرع یہ چار استنباط بھی کلمات ائمہ سے ذکر کئے کہ یہ بدیہی مسئلہ اپنے غایت وضوح واشتہار کے باعث اس قبیل سے تھا جس پر خادم فقہ کو کتب ائمہ میں تصریح جزئیہ ملنے کی امید نہ ہوتی کہ ایسی روشن و مشہور باتوں پر فقہائے کرام کم توجہ فرماتے ہیں۔۔ مگر بحمد اللہ تعالی جب فقیر یہاں تک لکھ چکا مسلہ کا خاص جزئیہ کلمات علماء میں یاد آیا جس میں ائمہ دین نے صاف تصریحیں فرمائی ہیں کہ مسجد کے صیفی دشتوی یعنی صحن و مستقف دونوں درجے یقیناً مسجد ہیں ۔۔۔ (کتب فقہ سے جزئیات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں) دیکھو اول کی سات کتابوں میں صیفی دشتوی دونوں کو مسجد فرمایا اور آٹھ سے گیارہ تک چار کتابوں میں انھیں مسجد داخل و مسجد خارج سے تعبیر کیا۔ صغیری نے ان عبارات شتی کا مصداق واحد ہونا ظاہر کردیا، اور حلیہ میں تصریح فرمادی کہ مسجد بیرونی صحن مسجد کا نام ہے، تو صاف واضح ہوگیا کہ صحن مسجد قطعاً مسجد ہے جسے علماء کبھی مسجد صیفی اور کبھی مسجد الخارج سے تعبیر فرماتے ہیں والحمد لله على وضوح الحق ( حق کے واضح ہو جانے پراللہ کی حمد ہے ) ۔
ان نصوص صریحہ کے بعد ان استنباطوں کی حاجت نہ تھی مگر کیا کیجئے کہ فقیر انھیں پہلے ذکر کر چکا تھا معہذا اُن کے ابقا میں طالبان علم و خادمان فقہ کی منفعت کہ اقوال علماء سے استنباط مسائل کا طریقہ دیکھیں وباللہ التوفیق اب کہ بحمداللہ کا لشمس علی نصف النہار واضح و آشکار ہو گیا کہ صحن مسجد بالیقین جزء مسجد ہے تو اس کے لئے تمام احکام مسجد آپ ہی ثابت۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 60 تا 70