:سوال
ایک خطبہ امام اہلسنت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھیجا گیا جو کہ پورا فتاوی رضویہ میں نہیں ہے، اس کے بارے میں پوچھا گیا کہ، کیا یہ خطبہ جمعہ کے دن پڑھنا درست ہے؟ تو امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا۔
: جواب
یہ خطبہ پڑھنا حرام اور محض بدخواہی عوام اسلام ہے، یہ مخاطبہ ہائلہ کہ اس میں مذکور ہوا اصلاً کسی آیت یا حدیث یا اثر یا کسی کتاب معتمد معتبر میں اس کا پتا نہیں، نہ حضرت سید نا مخدوم شیخ سعد بدھن رضی اللہ تعالی عنہ سے بروجہ صحیح اس کا ثابت ہونا معلوم اگر ایسی ہی حکایت بے سروپا ہے جب تو اس کا واجب الرد ہونا خود ظاہر۔ اور اگر خطائے نساخ نہ ہو تو اس کی بے ربطی عبارت خود اس کے بطلان نسبت پر دلیل زاہر مثلاً صدر خطبہ میں
افمن شرح الله صدره للاسلام ومن تاب توبة نصوحا من التابعين
( كياوہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالی اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور وہ شخص جس نے خالص تو بہ کر لی وہ تابعی ہے)
مزید پڑھیں:جمعہ کے لیے سلطان، نائب یا ماذون کا امام ہونا شرط
، خطبہ ثانیہ میں
نشهدان مـحـمـد اعبده ورسوله خصوصا على افضل الصحابة وافضلهم بالتحقيق
( ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں خصوصا صحابہ سے افضل اور بالیقین ان سے صاحب فضیلت پر ) پھر اصل مقصود خطبہ کہ لوگوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے یعنی اعمال صالحہ کی ترغیب دینا ، معاصی سے روکنا، یہ خطبہ اس سے اصلا بحث نہیں رکھتا بلکہ صراحتہ اس کے خلاف ہے، جب ہر جمعہ جاہل لوگ سنیں گے کہ اللہ عز وجل فرما چکا ہے کہ ہر که گواهی دهد مرا بوحدانیت و مرتر ابر سالت در آید به بهشت بر هر کاریکه او باشد (جو میری وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دے دے وہ جنت میں داخل ہوگا اسکے عمل جیسے بھی ہوں ) اس کا کیسا برا اثر ان پر پڑے گا وہ سمجھ لیں گے کہ بس کلمہ پڑھ لینا کافی ہے اعمال فضول و مہمل ہیں۔
پھر عوام کے سامنے یہ تین مصطلحات خاصہ صوفیہ کرام مثل قمار بازی و قلندری و چاک دامنی وعیاری کا تذکرہ کس قدر خلاف مقاصد خطبہ ہے۔ اور ان سب سے بدتر اور کروروں درجہ بدتر وہ تذکرہ کہ مصطفی سید المرسلین اکرم الاولین والآخرین صلی اللہ علی علیہ سلم سے خطاب ہو تو کیستی که خاطر جمع می خواهی حکم بر انبیائے اولین که دیم بہ پریشانی (آپ کون ہیں جو دل کا اطمینان چاہتے ہیں ہم نے تو سابقہ انبیاء کو پریشانی کا حکم دیا )اس سے صاف صاف انبیائے سابقین علیم الصلوۃ والتسلیم کی معاذ اللہ حضور پر نورسید یوم النشور صلی اللہ تعالی عیہ وسلم سے افضلیت ٹپکتی ہے، ایسے محاورات میں اعلیٰ ہی سے استشہاد کیا کرتے ہیں، مثلا کسی امیر سے کہیں تیری کیا حقیقت ہے سلاطین تو اس سے محفوظ نہ رہے،
مزید پڑھیں:امامت پنجگانہ و امامت جمعہ و عیدین کا ایک ہی حکم ہے کیا؟
اور اگرتنذل بھی کیجئے تو حضور اقدس صلی اللہ علی علیہ سلم کا اگلے انبیا علیہم الصلوۃ سے افضل نہ ہونا تو اس کا صاف کہنا ہے یہ کیا گمراہی نہیں، پھر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راحت کی نسبت، اور وہ بھی یوں مرضی انہی کے خلاف، اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف اس فریاد کا انتساب کہ بالیت رب محمد لم يخلق محمدا صلى الله تعالى عليه وسلم (اے رب محمد ! کاش محمد کو پیدا ہی نہ کرتا ) جہال کی نگاہ سے معاذ اللہ سقوط عظمت کا باعث ہوگا اور عیاذ باللہ یہ عقیدہ ہو تو ایمان ہی گیا کہ ایمان تو صرف ان کی تعظیم محبت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ولتؤمنوا بالله ورسوله وتعزروه و تو قروه
الله تعالی پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر، اور ان کی خوب تعظیم و توقیر کرو۔
پ 26 سورة الفتح، آیت 9)
غرض کسی طرح گمان نہیں کیا جاتا کہ حضرت مخدوم قدس سرہ الکریم نے یہ خطبہ تصنیف فرمایا ہو اور اگر بالفرض حضرت ممدوح سے اس کا ثبوت صحیح بروجہ معتمد ہو کہ حضرت نے یہ مخاطبہ کہیں ذکر فرمایا تو اب نظر اس میں ہوگی کہ آیا برسبیل نقل و حکایت ہے یا بر بنائے کشف و الہام، بر تقدیر اول جبکہ مدار روایت پر رہا تو مسئلہ علوم ظاہرہ کے دائرہ میں آگیا صحت سند درکار ہوگی اور کسی ولی معتمد کا کوئی نا معتمد حکایت کسی سے نقل فرمانا اس کی روایت کو صحیح و واجب الاعتماد نہ کر دے گا۔ اگر بفرض غلط یہ بھی ا یہ بھی تحقیق ہو جائے کہ حضرت مخدوم قدس سرہ المکتوم نے بر بنائے کشف ووالہام یہ مخاطبہ ذکر فرمایا تو بحمد اللہ ہم غلامانِ بارگاہ اولیاء ان میں نہیں کہ کشف والہام باطل یا نا معتبر ٹھہرائیں،
مزید پڑھیں:جمعہ گاؤں میں درست ہے یا نہیں؟
احتمال خطا کشف مبتدین و اوساط میں ہوتا ہے، اکابر واصلين نفعنا الله تعالى ببركاتهم في الدنيا والآخرة والدین کا کشف متین والہام مبین حق و صحیح ہوتا ہے۔ اب یہ مخاطبه ان مقامات راز و نیاز سے ہوگا مولی وعبد و محبوب میں ہوتے ہیں جن میں دوسرے کو دخل دینا حرام، انھیں نقل مجلس بنانا حرام بلکہ بحال فسادنیت کفر صریح بلا کلام، بھلا یہ تو ایک مخاطئہ کشفیہ ہوگا ، امیر المؤمنین نے ایک شخص کو کہ سورہ عبس شریف کی تلاوت بکثرت کرتا ر جر شدید فرمایا ۔ امام ابن الحاج مکی مدخل میں فرماتے ہیں
” قد قال علمائنا رحمة الله تعالى عليهم ان من قال عن نبي من الانبيا عليهم الصلوة والسلام في غير التلاوة والحديث انه عصى أو خالف فقد كفر نعوذ بالله من ذلك “
ترجمہ: ہمارے علماء رحمهم اللہ تعالی نے فرمایا: ہروہ شخص جو تلاوت قرآن وحدیث رسول پڑھنے کے علاوہ کہے کہ فلاں نبی نے نافرمانی کی یا شریعت کی مخالفت کی وہ کافر ہو جائے گا ، ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(المدخل لابن الحاج ، ج 2، ص 15 ، دار الكتاب العربي، بيروت)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 389 تا 394