:سوال
ایک شخص کمال درجہ کا بھول رکھتا ہے، تکبیر و رکوع و سجود و قیام بلکہ ہر رکعت میں بھول جاتا ہے، بھول کے خوف سے بلند قرآت کے ساتھ پڑھتا ہے تا کہ ہم بھول نہ جائیں، کتناہی وہ شخص دل میں خیال وغور کر کے پڑھتا ہے تاہم بھول جاتا ہے کچھ بھی خیال نہیں رہتا ہے اور وہ شخص جب نماز پڑھنے لگتا ہے تو ایک شخص کو اس غرض سے بٹھاتا ہے کہ جو کچھ سہو واقع ہو اس کو بتلاتا جائے اس شخص کو نماز کے اندر بہت پریشانی ہوتی ہے، ایسی حالت میں اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
:جواب
کسی شخص کو پاس بٹھالینا اور اس کے بتانے پر نماز پڑھنا نماز باطل کرے گا، فجر ومغرب و عشاء میں منفرد کو بآ واز پڑھنے کی اجازت ہے، ظہر و عصر میں صحیح مذہب پر اجازت نہیں، چارہ کار یہ ہے کہ وہ شخص جماعت میں مقتدی ہو کر پڑھے تو مقتدی کو قرات کرنی نہ ہوگی اور امام کے افعال اسے بتانے اور یاد دلانے والے ہوں گے، جماعت ویسے بھی واجب ہے، اور ایسے شخص پر تو نہایت اہم واجب ہے کہ بغیر اس کے اس کی نماز ٹھیک ہی نہیں سنتیں اور نقل جو پڑھے ان میں کسی شخص کو امام کر لے کہ نفل محض میں تین تک جماعت جائز ہے، اور جب کوئی شخص امامت کو نہ ملے اپنی یاد پر پڑھے رکعتوں میں اگر شبہہ ہو تو کم سجھے ، مثلاً ایک اور دو میں شبہہ ہو تو ایک سمجھے اور دو اور تین میں ہو تو دو، اور جہاں جہاں قعدہ اخیرہ کا شبہ ہو تو وہاں بیٹھتا جائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرے اور اگر کسی طرح اپنی یاد سے نماز ادا کرنے پر قادر ہی نہ ہو تو معاف ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 217