کسی فعل میں موضوع حدیث ہو تو کیا وہ ممنوع ہو جاتا ہے؟
:سوال
اگر کسی فعل کے کرنے کے بارے میں موضوع حدیث ہو تو کیا اس سے وہ فعل ممنوع ہو جاتا ہے؟
:جواب
حدیث اگر موضوع بھی ہو تو تاہم اس سے فعل کی ممانعت لازم نہیں ( کہ ) موضوعیت حدیث عدم حدیث ہے ( یعنی حدیث نہیں ہے )نہ حدیث عدم (نہ کہ ممانعت کی حدیث ) ، اُس کا اصل صرف اتنا ہوگا کہ اس بارہ میں کچھ وارد نہ ہوا، نہ یہ کہ انکار ومنع وارد ہوا ،اب اصل کو دیکھا جاۓ گا اگر قوائد شرع مما نعت بتائیں ممنوع ہو گا ورنہ اباحت اصلیہ پر رہےگا اور بہ نیت حسن حسن ومستحسن ہو جائے گا ۔ كما هو شان المباحات جميعا كما نص عليه عنه في الأشباه ورد المحتار وانموذج العلوم وغيرها من معتمدات الاسفار – جیسا که تمام مباحات کا معاملہ ہے جیسا کہ اس پرا شباہ ور دالمختار اورانموذج العلوم اور ان جیسی دیگر معتمد کتب میں تصریح کی ہے۔
حدیث کے موضوع ہونے سے فعل کیوں ممنوع ہونے لگا موضوع خود باطل ومہل و بے اثر ہے یا نہی و ممانعت کاپروانہ۔ لا جرم علامہ سیدی احمد طلحطاوی مصری فرماتے ہیں ای حيث كان مخالفا لقواعد الشريعة واما لو كان داخلا في اصل عام فلا مانع منه لا لجعله حديثا بل لدخوله تحت الاصل العام ” یعنی جس فعل کے بارے میں حدیث موضوع وارد ہوا سے کرنا اُسی حالت میں ممنوع ہے کہ خود وہ فعل قواعد شرح کے خلاف ہو اور اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اصل کلی کے نیچے داخل ہے تو اگر چہ حدیث موضوع ہو فعل سے ممانعت نہیں ہوسکتی نہ اس لئے کہ موضوع کو حدیث ٹھہر ائیں بلکہ اس لئے کہ وہ قاعدہ کلیہ کے نیچے داخل ہے۔
علامہ طاہرفتی آخر مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں، یہ حدیث کہ جس نے پھول سونگھا اور مجھ پر درود نہ بھیجا اُس نے مجھے پر ظلم کیا باطل و کذب ہے ایسی ہی وہ حدیث جو گلاب کا پھول کو سونگھنے میں آئی۔ میں نے اس باب میں اپنے شیخ حضرت شیخ علی متقی ملکی قدس سرہ الملکی کولکھا کہ خوشبو تو سونگھتے وقت درود پاک کی کچھ اصل ہے؟ انہوں نے ہمارے استاد امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ یا کسی اور عالم کے حوالہ سے جواب تحریر فرمایا کہ ایسے وقت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی کچھ اصل نہیں تاہم ہمارے نزدیک اس میں کوئی کراہت بھی نہیں ۔
مزید پڑھیں:کتب حدیث کے چار طبقات
پھر امام مذکور بعد اس تحقیق کے کہ اس وقت غافلانہ بے نیت ثو اب درود نہ پڑھنا چاہئے ارشاد فرماتے ہیں امامن استيقظ عند اخذالطيب أو شمه إلى ما كان عليه صلى الله تعالى عليه وسلم من محبته للطيب واكثاره منه فتذكر ذلك الخلق العظيم فصلى عليه صلى الله تعالى عليه وسلم حینئذ لما وقر في قلبه من جلالته واستحقاقه على كل امته ان يلحظوه بعين نهاية الاجلال عند رؤية شيء من آثاره أو ما يدل عليها فهذا لاكراهة في حقه فضلا عن الحرمة بل هوات بما فيه اكمل الثواب الجزيل والفصل الجميل وقد استحبه العلماء لمن رأى شيئا من اثاره صلى الله تعالى عليه وسلم ولا شک ان من استخصر ماذکرتاہ عند شمہ الطیب یکون کا لرائی لشی ء من اثارہ الشر یفتہ فی المعنی فلیسن لہ الاکثار من الصلاة والسلام عليه صلى الله تعالی علیه وسلم “
ہاں خوشبو لیتے یا سونگھتےوقت متنبہ ہو کہ حضور اللہ تعالی علیہ وسلم اسے دوست رکھتے اور بکثرت استعمال فرماتے تھے اس خلق عظیم کو یاد کر کے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم پر درو بھیجے کہ حضور کی عظمت اور تمام امت پر حضور کا یہ حق ہونا اُس کے دل میں جما کہ جب حضور کے آثار شریفہ یا اُن پر دلالت کرنے والی کوئی چیز دیکھیں تو نہایت تعظیم کی آنکھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم کا تصور کریں تو ایسے کے حق میں حرمت چھوڑ کر اہت کیسی ، اس نے تو وہ کام کیا جس پر ثواب کثیر و فضل جمیل پائے گا کہ زیارت آثار شریفہ کے وقت درود پڑھنا علما مستحب رکھا ہے اور شک نہیں کہ جس نے خوشبو سونگھتےوقت یہ تصور کیا وہ گویا معنی بعض آثار شریفہ کی زیارت کر رہا ہے تو اسے اس وقت حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود و سلام کی کثرت سنت ہے۔
دیکھو با آنکہ احادیث موضوع تھیں اور خاص فعل کی اصلا سند نہیں پھر بھی علما نے جائز رکھا اور بہ نیت نیک باعث اجر عظیم و فضیل کریم قرار دیا۔ مولانا علی قاری علیہ رحمتہ الباری نے موضوعات کبیر میں فرمایا احادیث الذکر علی اعضاء الوضوء کلہا باطلۃ جن حدیثوں میں یہ آیا ہے کہ وضو میں فلاں فلاں عضو دھوتے وقت یہ دعا پڑھو سب موضوع ہے۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
با ینہمہ فرمایا ثم اعلم انہ لا يلزم من كون اذكار الوضوء غير ثابتة عنه صلى الله تعالى عليه وسلم ان تكون مكروهة أو بدعة مذموھة بل انها مستحبة استحبها العلماء الاعلام والمشايخ الكرام لمناسبة كل عضو بدغاء يليق في المقام “ پھر یہ جان رکھ کر ادعیہ وضو کا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثابت نہ ہونا ایسے مستلزم نہیں کہ وہ مکروہ یا بدعت شنیعہ ہوں بلکہ مستحب ہیں علمائے عظام وا ولیائےکرام نے ہر ہر عضو کے لائق دعا اس کی مناسبت سے مستحب مانی ہے۔
اس عبارت سے روشن طور پر ثابت ہوا کہ اباحت تو اباحت موضوعیت حدیث استحباب فعل کی بھی منا فی نہیں اور واقعی ایسا ہی ہے کہ موضو عیت عدم حدیث ہے اور وہ ورود حدیث بخصوص فعل لازم استحباب نہیں کہ اس کے ارتفاع سے اس کا انتفالازم آئے کما لا یخفی۔ تنبیہ اس بارہ میں سب احادیث کا موضوع ہونا ابن القیم کا خیال ہے اسی سے مولانا علی قاری نے نقل فرمایا اور ایسا ہی ذہبی نے ترجمہ عباد بن صہیب میں حسب عادت حکم کیا گیا مگر عندا التحقیق اس میں کلام ہے اس باب میں ایک مفصل حدیث ابو حاتم اور ابن حبان نے تاریخ میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انصافا غایت اس کی ضعیف ہے اور مقام مقام فضائل۔
ا قول (میں کہتا ہوں) تحقیق مقام یہ ہے کہ عمل بموضوع و عمل بمافی موضوع (موضوع حدیث پر عمل کرنے اور جو کچھ موضوع حدیث میں ہے اس پر عمل کرنے )میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ثانی مطلقا ممنوع نہی ورنہ ایجاب و تحریم(کسی چیز کو واجب اور حرام کرنے) کی باگ مفتریان بیباک کے ہاتھ ہو جائے لاکھوں افعال مباحہ جن کے خصوص میں نصوص نہیں وضاعین(حدیث وضع کرنے والے) ان میں سے جن کی ترغیب میں حدیث وضح کر دیں حرام ہو جائے جس سے ترہیب(منع کرنے ڈرانے) میں گھڑلیں وہ واجب ہو جائے کہ تقدیر اول پر فعل ثانی پر ترک مستلزم موافقت موضوع ہوگا اور ممنوع۔ لطف یہ کہ اگر ترغیب و ترہبیب دونوں میں بنا دیں تو فیل و ترک دونوں کی جان پر بنا دیں نہ کرتے بن پڑے نہ چھوڑتے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 561 تا 571

READ MORE  جمعہ کا امام کون ہو سکتا ہے؟
مزید پڑھیں:کیا ضعیف احادیث کسی کی افضلیت ثابت کرنے میں کارآمد ہوتی ہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top