:سوال
کیا محبوبان خدا کی تعظیم ضروری ہے؟ علما، جو فر ماتے ہیں کہ غیر خدا کے لئے تو اضع حرام ہے اس سے کیا مراد
ہے؟
:جواب
ہاں محبوبان خدا کی نفس تعظیم بیشک اہم واجبات و اعظم قربات سے ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَمَنْ يُعَظمُ حرمت الله فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ )ترجمہ: جو شخص اللہ تعالیٰ کی عزت والی چیزوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے لئے اللہ تعالٰی کے ہاں بہتر ہے۔ اور فرمایا(و من يعظم شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِن تَقوى القلوب ) ترجمہ جو شخص اللہ تعالی کی نشانیوں کی تنظیم کرے گا تو یہ قلبی تقوی ہو گا۔ اور فرمایا وانا (ارسلنک شاهدا و مشرا و نَذِيرًا لَتُؤْمِنُوا بِالله و رسوله و تعززوه و تو فروه ) ترجمہ ہم نے آپ کو مشاہدہ کرنے والا ، بشارت سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تا کہ اے مومنو! تم اللہ اور اس کے رسول کی تعظیم و تو قیر بجالاؤ۔
فتاوی عالمگیری میں فرماتے ہیں ” يتوجه إلى قبره صلى الله تعالى عليه وسله يقف كما يقف في الصلوة ويمثل صورته الكريمة البهيةاه ملتقطا ” یعنی قبر شریف سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف توجہ کرے اور یوں کھڑا ہو جیسے نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور حضور کی صورت مبارک کا تصور باند ھے۔ اے عزیز! اصل کار یہ ہے کہ محبوبان خدا کے لئے جو تواضع کی جاتی ہے وہ در حقیقت خدا ہی کے لئے تو اضع ہے لہذا بکثرت احادیث میں استاد و شاگرد و علما و عام مسلمین کے لئے تو اضع کا حکم ہوا جنہیں جمع کیجئے تو دفتر طویل ہوتا ہے۔ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” تعلموا العلم وتعلمو اللعلم السكينة والوقار وتواضعوا لمن تعلمون منه”علم سیکھو اور علم کے لئے سکون و مہابت ( وقار ) سیکھو اور جس سے علم سیکھتے ہو اس کے لئے تو اضع کرو۔
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ صحابہ کرام سے منقول نہیں
(الكامل في ضعفاء الرجال،ج 4 ،ص 542 ،دا رو لفکر ، بیروت )
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ”تو اضعو المن تعلمون منه وتواضعوا لمن تعلمونه ولا تكونوا جبابرة العلماء فيغلب جهلكم عليكم ” جس سے علم سیکھتے ہو اس کے لئے تو اضع کرو اور جسے علم سکھاتے ہو اس کے لئے تو اضع کرو اور متکبر عالم نہ بنو کہ تمہارا جہل تمہارے علم پر غالب ہو جائے۔ تو بات وہی ہے کہ انبیاء و اولیاء و مسلمین کے واسطے تو اضع اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں یہ اللہ کے ولی ہیں وہ دین الہی کے قیم ہیں یہ ملت الہیہ پر قائم ہیں تو علت تواضع جب وہ نسبت ہے جو انہیں بارگاہ الہی میں حاصل، تو یہ تواضع بھی در حقیقت خدا ہی کے لئے ہوئی، جیسے صحابہ کرام واہل بیت عظام کی تعظیم ومحبت بعینہ محبت و تعظیم سید عالم ہے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
تواضع لغیر اللہ کی شکل یہ ہے کہ عیاذ اباللہ کسی کا فریاد نیا دار غنی کے لئے اس کے سبب تو اضع ہو کہ یہاں وہ نسبت موجود ہی نہیں یا موجود ہے تو ملحوظ نہیں، اے عزیز ! کیا وہ احادیث کثیرہ بثیرہ جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے خشوع وخضوع بجالا نا مذکور ، اس درجہ اشتہار پر نہیں کہ فقیر کو ان کے جمیع و استیعاب سے غنا ہو ، ابوداؤد دونسائی وتر ندی و ابن ماجہ اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ” قال اتيت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم واصحابه حوله كان على روسهم الطير” فرمایا میں سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، حضور کے اصحاب حضور کے گرد تھے گویا۔ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، یعنی سرجھکائے گردنیں خم کئے بے حس وحرکت کہ پرندے لکڑی یا پتھر جان کر سروں پر آ بیٹھیں، اس سے بڑھ کر اور خشوع کیا ہوگا
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ کے بعد عراق کی جانب گیارہ قدم چلنا کیسا؟
(سنن ابو داود، ج 2 ،ص 183، فتاب عالم پریس، لاہور)
مولانا جامی قدس سره السامی نفحات الانس شریف میں لکھتے ہیں” ایک بزرگ نے فرمایا کہ میں اور شیخ علی ہیتی حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مدرسہ میں تھے کہ اتنے میں بغداد کے ایک بزرگ تشریف لائے اور انہوں نے عرض کی اے آقا غوث اعظم آپ کے جد امجد رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دعوت دے اس کی دعوت قبول کی جائے لو میں آپ کو اپنے گھر کے لئے دعوت دیتا ہوں تو آپ نے فرمایا اگرمجھے اجات ملی تو آؤں گا، یہ فرماکر آپ نے کچھ دیر سرمبارک کوجھکایا پھر فرمایا میں آ رہا ہوں آپ گھوڑے پر سوار ہوئے شیخ علی ہیتی نے دایاں رکاب اور میں نے بایاں رکاب پکڑاحتی کہ ہم سب شیخ کے گھر پہنچے تو وہاں پر بغداد کے مشائخ اور علما اور خاص لوگ موجود تھے دستر خوان بچھایا گیا جس پر مختلف قسم کی نعمتیں موجود تھیں اور ایک بھاری بوجھل تابوت کو دس آدمی اٹھائے ہوئے لائے جو اُوپر سے ڈھانپا ہوا تھا وہ دسترخوان کے قریب ایک طرف رکھ دیا گیا، اس کے بعد صاحب خانہ شیخ نے کھانا کھانے کو کہا تو حضرت غوث اعظم نے سر مبارک جھکایا نہ خود کھانا تناول فرمایا اور نہ ہی ہمیں کھانے کی اجازت دی، اور کسی نے بھی نہ کھایا جبکہ تمام اہل مجلس ایسے خاموش سر جھکائے ہوئے تھے جیسے کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔
( کلحات الانس ،ص 520 ،انتشارات کتاب فروشی، ایران )
یعنی اہل مجلس کہ تمام اولیاء وعلماء و عمائید بغداد تھے ہیبت سرکار قادریت کے سبب ایسے بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں، مقصود اسی قدر تھا مگر ایسی جانفزا بات کا نا تمام رہنا دل کو نہیں بھاتا لہذا تفریح قلوب سنت وغیظ صدور بدعت کے لئے تتمہ روایت نقل کروں، فرماتے ہیں ” حضرت نے مجھے اور شیخ علی ہیتی کو اشارہ فرمایا کہ اس تابوت کو میرے سامنے لاؤ، وہ بھاری تابوت ہم نے اٹھا کر آپ کے سامنے رکھ دیا پھر آپ نے فرمایا اس پر سے کپڑا ہٹاؤ، جب ہم نے دیکھا وہ اس شخص کا لڑکا تھا جو مادر زاد نا بینا اور مفلوج تھا تو حضرت نے اس لڑکے کو حکماً فرمایا قم باذن اللہ معافی (اللہ کے حکم سے کھڑے ہو جاؤ عافیت والے ہو کر) وہ لڑکا فوراً تندرست حالت میں کھڑا ہو گیا جیسا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ اس کے بعد حضرت حاضرین میں سے اُٹھ کر پوری جماعت کے ساتھ باہر تشریف لے گئے اور کچھ نہ کھایا۔ اس کے بعد میں شیخ ابو سعید قیلوی کے پاس گیا اور ان کو میں نے یہ تمام قصہ سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالی عنہ مادر زاد اند ھے اور کوڑھی کو تندرست اورمردے کو زندہ اللہ کے اذن سے کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:کیا قضاء نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں؟
(کلحات الانس،ص 520، انتشارات کتاب فروشی ،ایران )
امام ابو ابراہیم تحبیی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کتاب الشفاء میں ہے ”واجب علی کا كل مومن متى ذكره صلى الله تعالى عليه وسلم أو ذكر عنده أن يخضع و يخشع ويتوفر ويسكن من حركته ويأخذ في هيئته واجلاله بما كان ياخذاته نفسه لو كان بين يديه صلى الله تعالى عليه وسلم ويتأدب بما ادينا الله تعالى به ” ہر مسلمان پر واجب ہے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یاد کرے یا اس کے سامنے حضور کا ذکر آئے خضوع و خشوع بجالائے اور باوقار ہو جائے اور اعضا ء کو حرکت سے باز رکھے اور حضور کے لئے اس ہیبت و تعظیم کی حالت پر ما حالت پر ہو جائے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے روبرو اس پر طاری ہوتی اور ادب کرے جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمیں ان کا ادب سکھایا ہے۔
(کتاب الشفاء ، ج 2 ،ص 34 ، مطبعۃ شرکتہ صحافیۃ،تر کی )
امام اجل سیدی قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی شفا شریف میں امام تجیبی کا ارشاد نقل کر کے فرماتے ہیں” وهذه كانت سيرة سلفنا الصالح والمتنا الماضين رضی الله تعالى عنهم ” ہمارے سلف صالح وائمہ سابقین رضی اللہ تعالی عنہم کا یہی داب وطریقہ تھا۔
(کتاب الشفاء ، ج 2 ،ص 34 ، مطبعۃ شرکتہ صحافیۃ،تر کی )
اور فرماتے ہیں” كان مالك اذا ذكر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم يتغير لونه وينحنى ” أمام مالك رحمه اللہ تعالیٰ جب سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ذکر کرتے رنگ اُن کا بدل جاتا اور جھک جاتے ۔
(کتاب الشفاء ، ج 2 ،ص 34 ، مطبعۃ شرکتہ صحافیۃ،تر کی )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 594