کراہت کی وجہ سے دوسری عید گاہ بنانا کیسا؟
:سوال
ہمارے شہر کی عید گاہ پر پانچ چھ اشخاص بلا اجازت بانی مسجد اور بلا اجازت مسلمانان شہر ایسے قابض و متصرف ہو گئے ہیں کہ گویا وہ مالک ہی ہیں، چنانچہ علی الاعلان اس امر کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ اس مسجد میں سوائے ہمارے دوسرے کا حق نہیں جس کو ہم چاہیں گے امام بنائیں گے، اور امام جو بناتے ہیں تو ایسا کہ جس کے پیچھے نماز پڑھنے میں تمام مسلمانان شہر اور اہل علم حضرات کراہت کرتے ہیں اور یہ کراہت شرعی ہوتی ہے، اور ان پانچ چھ آدمیوں کے عقائد کی یہ کیفیت ہے کہ نکاح ثانی کو حرام قطعی سمجھتے ہیں، اور مسجد پر تصرفات میں سے یہ بھی ہے کہ اہل شہر کے ساتھ نماز پڑھنے میں مزاحمت کرتے ہیں، آیا اہل شہر کو اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور دوسری عید گاہ قرار دیکر اہلِ شہر نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
: جواب
اہل شہر کو اُس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے، اور اُن لوگوں کو مزاحمت کا کوئی حق نہیں ، اگر وہ مانع آئیں گے سخت ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
(ومن اظلم ممن منع مسجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعی فی خرابها )
ترجمہ: اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے نام کے ذکر سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے۔
( پ 1 سورة البقرة، آیت 114)
اور ایسا امام کہ وہ مقرر کریں معتبر نہ ہوگا، امام وہی مانا جائے گا جسے عام مسلمانان شہر حسب شرائط شرعیہ مقرر کریں گے، اس کے سوا وہ امام جسے وہ پانچ چھ بر خلاف شہر مقرر کریں نماز عید باطل محض ہوگی ، اہل شہر اگر کی وجہ سے اس عیدگاہ میں نماز نہ پڑھ سکیں دوسری جگہ پڑھیں اگر چہ کسی میدان میں کہ عیدگاہ میں عمارت کی حاجت نہیں اور اگر دوسری عیدگاہ ہی تعمیر کرنی مناسب ہو توانھیں اس کا بھی اختیار ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 76

READ MORE  وہابیہ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:اہل سنت کی مساجد میں بد مذہبوں کا کوئی حق نہیں
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top