جمعہ کی آذان ثانی میں سنت کی ارجح صورت
:سوال
میں جمعہ کی نماز ایک مسجد میں پڑھاتا ہوں اس مسجد کا وسیع صحن ہے مسجد سے باہر راستہ ہے جو ایک بانس کے قریب مسجد کے فرش سے نیچا ہے کوئی جگہ ہی نہیں جہاں مؤذن کھڑا ہو کر خطیب کے سامنے جمعہ کی اذان ثانی دے سکے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے؟ کیونکہ یا تو مسجد میں اذان دینا پڑے گی یا اذان امام کے سامنے نہ ہو سکے گی۔
:جواب
یہاں دو سنتیں ہیں، ایک محاذات خطیب ( خطیب کے سامنے ہونا )، دوسرے اذان کا مسجد سے باہر ہونا ، جب ان میں تعارض ہو اور جمع نا ممکن ہو توارجح کو اختیار کیا جائے گا كما هو الضابطة المستثمرة الغير المنخرمة (جیسا کہ دائمی اور نہ ٹوٹنے والا ضابطہ ہے ) یہاں ارجح واقوی سنت ثانیہ (ہے) بوجوہ ( کئی وجوہات سے )
اولا
مسجد میں اذان سے نہی ہے، قاضی خال و خلاصه وخزانة المفتين وفتح القدیر وبحرالرالق و بر حندی عالمگیری میں ہے
لا يو ذن في المسجد
ترجمہ: مسجد میں اذن نہ دی جائے۔
فتاری ہند یہ ج 1 ص 55 نورانی کتب خانہ پشاور )
نیز فتح القدير و نظم و طحطاوی علی المراقی وغیر ہا میں مسجد کے اندر اذان مکروہ ہونے کی تصریح ہے اور ہر مکروہ منہی عنہ ہے ۔۔ اور اجتناب ممنوع ، ایتان مطلوب سے اہم و اعظم ہے۔
مزید پڑھیں:دو خطبوں کے درمیان دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟
ثانیاً
محاذات خطیب ایک مصلحت ہے اور مسجد کے اندر اذان کہنا مفسدت اور جلب مصلحت سے سلب مفسدت اہم ہے۔ اشباہ میں ہے درء المفاسد اولى من جلب المصالح ” ترجمہ: مفاسد کا دفع کرنا مصالح کے حصول سے بہتر ہے۔
الاشباہ والنظائر ، ج 1 میں 125 ، ادارة القرآن و العلوم الاسلامیہ کراچی)
وجہ مفسدت ظاہر ہے کہ دربار ملک الملوک جل جلالہ کی بے ادبی ہے شاہد اس کا شاہد ہے دربار شاہی میں اگر چوب دار عین مکان اجلاس میں کھڑا ہوا چلا ئے کہ دربار یو چلو سلام کو حاضر ہو ، ضرور گستاخی بے ادب ٹھہرے گا، جس نے شاہی دربار نہ دیکھے ہوں وہ انھیں کچہریوں کو دیکھ لے کہ مدعی مدعا علیہ گواہوں کی حاضری کمرہ سے باہر پکاری جاتی ہے چپراسی خود کمرہ کچہری میں کھڑا ہو کر چلائے اور حاضریاں پکارے تو ضرور مستحق سزا ہو اور ایسے امور ادب میں شرعا عرف معہود فی الشاہد ہی کا لحاظ ہوتا ہے۔ محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں
یحال على المعهود من وضعها حال قصد التعظيم في القيام والمعهود في الشاهد منه تحت السرة
ترجمہ: حالت قیام میں بقصد ا بقصد تعظیم جو معروف ہو اس کے مطابق ہاتھ باندھے جائیں گئے اور جس معروف کا مشاہدہ ہے وہ یہی ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے۔
(فتح القدیر ج 1 ص 249 مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر)
مزید پڑھیں:ایک مسجد میں جمعہ کی دو یا زیادہ جماعتیں کروانا کیسا؟
اسی بناء پر علماء نے تصریح فرمائی کہ مسجد میں جوتا پہنے جانا بے ادبی ہے حالانکہ صدر اول میں یہ حکم نہ تھا۔
مسئلہ اولی یعنی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے میں کوئی حدیث موافق نہ تھی اور ثانیہ ( مسجد میں جوتے پہن کر جانے) میں حدیث بر خلاف تھی با ینہمہ امور ادب میں عرف شاہد کا اعتبار فرمایا تو جہاں خود حدیث بھی موافق ہی موجود ہے ادب معروف کا لحاظ نہ کرنا کس درجہ گستاخی و بیبا کی ہے۔
ثالثاً
محاذات خطیب ایک اختلافی سنت ہے ، رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم سے یہاں نقل مختلف ہے بکثرت ائمہ مالکیہ اذان ثانی جمعہ کے روئے بروئے خطیب ہونے ہی کو بدعت بتاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں یہ اذان بھی منارہ ہی پر ہوتی تھی جیسے پنجگانہ کی اذان بخلاف اذان مسجد کہ مالکیہ بھی اسے ممنوع جانتے ہیں۔
تو ثابت ہوا کہ اذان بیرون مسجد ہونا ہی محاذات خطیب سے اہم و اعظم وا کد والزم ہے تو جہاں دونوں نہ پڑیں محاذات خطیب سے درگزریں اور منارہ یا فصیل وغیرہ پر یہ اذان بھی مسجد سے باہر ہی دیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 405 تا 411

READ MORE  سجدہ سہو کے بعد شریک امام ہوئے شریک جماعت ہو گئے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:امام معین کی اجازت کے بغیر کسی کا خطبہ اور جمعہ پڑھانا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top