ایک امام کے رافضی ہونے میں شبہ ہے، اس کو امام برقرار رکھا جائے یا ہٹا دیا جائے ؟ اسی طرح اس کو بچوں کا معلم رکھنا کیسا ہے؟
:جواب
اور اگر صرف اسی قدر ہو کہ اس کی حالت مشکوک و مشتبہ ہے جب بھی اسے امامت سے معزول کرنا بدلائل کثیرہ واجب ہے۔ دلیل نمبر (1): علاء تصریح فرماتے ہیں کہ جب کسی امر کے بدعت وسنت ہونے میں تر در ہو تو وہاں سنت ترک کی جائے ۔۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شخص واقع میں سنی ہو تو خاص اسی کو ایام کرنا کچھ سنت بھی نہیں اور رافضی ہو تو اسے امام کرنا حرام قطعی ، جب سخت و مکروہ کے تر ددمیں ترک سنت کا حکم ہوا تو جائز و حرام قطعی کے ترد دمیں وہ جائز کیوں نہ واجب الترک ہوگا۔ دلیل نمبر (۲): علماء فرماتے ہیں کہ جب کسی بات کے واجب و بدعت ہونے میں تردد ہو تو ترک نہ کی جائے ۔۔ ظاہر ہے کہ یہ شخص سنی ہو تو اس کی جگہ دوسرا امام مقر کرنا کچھ بدعت بھی نہیں اور رافضی ہو تو اسے معزول کرنا فرض قطعی جب بدعت و واجب کے تردد میں فعل ضروری ہوتا ہے تو جائز و فرض قطعی کے تردد میں اسے معزول کرنا کیوں نہ اشد ضروری ہوگا۔ دلیل نمبر (۳): شرع مطہر کا قاعدہ مقرر ہے کہ اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام ” جب ایک چیز میں حلت و حرمت دونوں و جہیں جمع ہوں تو غلبہ حرمت کو رہے گا اور وہ شے حرام کبھی جائے گی ۔۔ یہ سنی ہو تو امامت حلال اور رافضی ہو تو حرام، تو غلبہ حرمت ہی کو دیا جائیگا۔ دلیل نمبر (۴) عبادات میں احتیاط مطلقاً واجب ہے نہ کہ نماز کہ اہم واعظم عبادات ہے جس کے لئے علماء فرماتے ہیں کہ اگر اس کی صحت و فساد میں اشتباہ پڑے ایک وجہ سے فاسد ہوتی ہو اور متعدد وجوہ سے صحیح تو اس ایک ہی وجہ کا اعتبار کر کے اس کے فساد ہی کا حکم دیں گے۔ ظاہر ہے کہ ہر تقدیر سنیت اس کے پیچھے نماز صحیح اور بر تقدیر رفض فاسد، تو اس کی امامت کیونکر جائز ہوسکتی ہے۔
دلیل نمبر (۵): علماء فرماتے ہیں قاضی محض تہمت و حصول ظن پر تعزیر دے سکتا ہے۔۔ جب تہمت ایسی چیز ہے جس کے سبب بے ثبوت صریح ایک مسلمان کو سزا دینے کی اجازت ہو جاتی ہے جس میں اصل حرمت ہے تو نماز کے لئے احتیاط کرنی کیوں نہ واجب ہو جائیگی جس کی اصل فرضیت ہے جس شخص نے اس کے حال سے مطلع ہو کر اسے مسلمانوں کا امام یا اپنے لڑکوں کا معلم مقرر کیا حالانکہ اہلسنت میں صاف و پاک امام و معلم بکثرت مل سکتے ہیں اس نے اللہ و رسول ( عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) اور مسلمانوں سب کی خیانت کی وہ مسلمانوں کا بدخواہ ہے اس پر اپنے فعل سے تو بہ اور اپنے مقرر کئے ہوئے کو معزول کرنا لازم، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں
من استعمل رجلا من عصابة وفيهم من هو ارضى لله منه فقد خان الله ورسوله والمؤمنين
ترجمہ: جس نے کسی جماعت سے ایک شخص کو کام پر مقرر کیا اور ان میں وہ شخص موجود تھا جو اس سے زیادہ اللہ کو پسند ہے تو اس نے اللہ ورسول ( عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) اور مسلمین سب کی خیانت کی۔
المستدرک علی الصححییں ، ج 4 ص 92، دار الفکر، بیروت)
پھر اگر یہ شخص تو بہ بھی کرلے تو بمجرد تو بہ اسے امام نہیں بنا سکتے بلکہ لازم ہے کہ ایک زمانہ ممتد تک اسے معزول رکھیں اور اس کے احوال پر نظر رہے، اگر خوف و طمع و غضب و رضا و غیر ہا حالات کے متعدد تجربے ثابت کر دیں کہ واقعی یہ سنی صحیح العقیدہ ثابت قدم ہے اور روافض سے اصلامیل جول نہیں رکھتا بلکہ ان سے اور سب گمراہوں بدینوں سے متنفر ہے اس وقت اسے امام کر سکتے ہیں۔ امیر المومنین غیظ المنافقین امام العادلین سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب صبیغ سے جس پر بوجہ بحث متشابہات بد مذہبی کا اندیشہ تھا بعد ضرب شدید ( شدید مار کے بعد ) تو بہ لی ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو فرمان بھیجا کہ مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھیں اس کے ساتھ خرید و فروخت نہ کریں بیمار پڑے تو اس کی عیادت کو نہ جائیں مر جائے تو اس کے جنازے پر حاضر نہ ہوں تعمیل حکم احکم ایک مدت تک یہ حال رہا کہ اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے اور وہ آتا سب متفرق ہو جاتے جب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے عرضی بھیجی کہ اب اس کا حال اچھا ہو گیا اس وقت اجازت فرمائی۔
سنن دارمی ، ج 2، ص 51 نشر السنۃ ملتان )
بلکہ اگر اس کا مکروز ور و کذب و فریب ظاہر و مشہور ہو تو بعد تو بہ بھی کبھی امام نہ کریں کہ اسے امام کرنا کچھ ضرور نہیں اور معروف کذاب کی تو بہ پر ہمیں اعتبار کا کیا ذریعہ ہے خصوصاً روافض خذلہم اللہ تعالی کہ تقیہ ( بسبب خوف اصل بات چھپانا ) ان کا اصل مذہب اور اس کی بنیاد کا سب سے پہلا پتھر ہے خصوصاً جہاں نوکری وغیرہ کی طمع یا کسی خوف کا قدم درمیان ہو۔ بعینہ یہی حکم وہابیت دیو بند یہ کا ہے کہ وہ بھی مثل رفض زمانہ ارتداد مبین اور اس کے اصاغر (چھوٹے) مثل روافض تقیہ گزیں تو جسے دیکھیں کہ ان لوگوں سے میل جول رکھتا، ان کی مجالس وعظ میں جاتا ہے، اس کا حال مشتبہ ہے ہرگز اسے امام نہ کریں اگر چہ اپنے کو سنی کہتا ہے۔