: سوال
امام کے ساتھ ایک مقتدی برابر کھڑا ہے دوسرا اور آیا نہ وہ مقتدی اول پیچھے ہٹا نہ امام آگے بڑھا، تو یہ اس مقتدی کو نیت باندھ کر کھینچے یا بے نیت باندھے؟
:جواب
دونوں صورتیں جائز ہیں۔ مگر یہاں واجب التنبیہ یہ بات کہ کھینچنا اس کو چاہئے جو ذی علم ہو یعنی اس مسئلہ کی نیت سے آگاہ ہو ورنہ نہ کھینچے کہ مبادا ( کہیں ایسا نہ ہو کہ ) وہ بسبب نا واقفی اپنی نماز فاسد کر لے۔ تحقیق منقح اس مسئلہ میں یہ ہے کہ نماز میں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول (جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کے سوا دوسر ے سے کام کرنا مفسد ہے یونہی اللہ ورسول (جل جلا لہ و صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم )کے سواکسی کا کہنا ماننا، پس اگر ایک شخص نے کسی نمازی کو پیچھے کھینچایا آگے بڑھنےکو کہا اور اس کا حکم مان کر پیچھے ہٹا نماز جاتی رہی گر چہ یہ کم دینے والا نیت باندھ چکا ہو اور اگر اس کے حکم سے کام نہ رکھا بلکہ مسئلہ شرع کے لحاظ سے حرکت کی تو نماز میں کچھ خلل نہیں اگر چہ اس کہنے والے نے نیت نہ باندھی ہو اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس کے کہتے ہی فوراً حرکت نہ کرے۔
بلکہ ایک ذرہ تامل کرلے تا کہ بظاہر غیر کے حکم ماننے کی صورت بھی نہ رہے جب فرق صرف نیت کا ہے اور زمانہ پر جہل غالب، تو عجب نہیں کہ عوام اس فرق سے غافل ہو کر بلا وجہ اپنی نماز خراب کر لیں ، والہذا علماء نے فرمایا: غیر ذی علم کو اصلاً نہ کھینچے اور یہاں ذی علم وہ جو اس مسئلہ اور نیت کے فرق سے آگاہ ہو۔ رہا یہ کہ جب نہ مقتدی ہٹے نہ امام بڑھے نہ وہ ذ ی علم ہو کہ یہ کھینچ سکے یامثلا امام قعدہ اخیرہ میں ہو جہاں ان باتوں کا محل ہی نہیں تو ایسی صورت میں اس آنے والے کو کیا کرنا چاہئے ، اگر امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی ہو اس کے بائیں ہاتھ پر یہ مل جائے کہ امام کے برابر دو مقتدیوں کا ہونا صرف خلاف اولی ہے۔ اور اگر پہلے سے دو ہیں تو یہ پیچھے شامل ہو جائے کہ امام کے برابر تین مقتدیوں کا ہونا مکروہ تحریمی ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 62