ایک قلعہ میں عام لوگوں کو اجازت نہیں، وہاں جمعہ کا حکم؟
:سوال
ایک قلعہ میں جہاں عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں، وہاں جمعہ کا کیا حکم ہے؟ بعض جائز کہتے ہیں اور حوالہ کے طور پر عبارت شامی پیش کرتے ہیں ” قلت وينبغي ان يكون محل النزاع ما اذا كانت لا تقام الافي محل واحد اما لو تعددت فلا لانه لا يتحقق التفويت كما افاده التعليل تامل “ ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ مناسب یہ ہے کہ محل تزاع وہ صورت ہے جب ایک ہی مقام پر جمع کا قیام ہواور اگر متعد جگہ ہوتو پھر محل نزاع نہیں کیونکہ پھر تقویت متحق نہیں جیسا کہ علت کے بیان نے فائدہ دیا ہے، غور کرو۔
:جواب
صورت مستفسرہ میں جبکہ قلعہ کی بندش ہے، باہر کا کوئی شخص نماز کے لئے اس میں نہیں جاسکتا تو اذن عام نہ ہوا، اور اذن عام فی نفسہ شرط جمعہ ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے یہ قول کسی سے نقل نہ فرمایا بلکہ یہ ان کا اپنا خیال ہے جسے وہ قلت سے شروع فرماتے ہیں اور خود ان کو بھی اس پر وثوق نہیں کہ آخر میں تامل کا حکم فرماتے ہیں، علامہ شامی رحمتہ اللہ تعلی علیہ اہل بحث نہیں ان کی بحث کا اگر مسئلہ منصوصہ کے خلاف ہونا معلوم نہ بھی ہو تا ہم وہ ایک بحث ہے جو حجت نہیں ہو سکتی نہ کہ جب ان کی بحث مخالف منقول و منصوص واقع ہے کہ ایسی بحث تو امام ابن الہمام کے بھی منقول نہیں ہوتی جس کی خود علامہ شامی نے جا بجا تصریح فرمائی ۔۔۔
براہ بشریت یہ بحث اسی طرح واقع ہوئی، فقیر نے ردالمحتار پراپنی تعلیقات میں اس مسئلہ کی بحث تمام کر دی ہے اس میں سے یہاں صرف یہ چند کلمات کافی ہیں کہ امام مالک العلماء ابوبکر محمد کاشانی کتاب مستطاب بدائع اور ان کے سوا اور ائمہ اپنی تصانیف میں اور ان سب سے امام ابن امیر الحاج حلیہ میں نقل فرماتے ہیں السلطان اذا صلي في داره و القوم مع امراء السطان في المسجد الجامع قال ان فتح باب داره جاز، وتكون الصلوة في موضعين، ولو لم ياذن للعامة وصلى مع جيشه لا تجوز صلوة السلطان وتجوز صلوة العامة
مزید پڑھیں:جامع مسجد میں ایسا امام جو سودی کام کرتا ہو، تو کیا حکم ہے؟
ترجمہ: جب سلطان نے اپنی دار میں اور قوم نے اس کے حکم سے جامع مسجد میں جمعہ ادا کیا تو انھوں نے فرمایا اگر دار کا دروازہ کھولا تھا تو جائز ، اور نماز دونوں جگہ ہو جائے گی ، اور اگر عوام کو اذنِ عام نہ تھا اور بادشاہ نے اپنے لشکر کے ساتھ جمعہ ادا کیا تو سلطان کی نماز جائز نہیں البتہ عوام کی نماز جائز ہوگی۔
(بدائع الصنائع ، ج 1 ص 269 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی
دیکھو یہ نص صریح ہے اجلہ ائمہ کی نقل اور محرر مذہب امام محمد سے بلا خلاف منقول کہ قلعہ سے باہر بھی جمعہ ہوا اور قلعہ میں بھی سلطان نے پڑھا اگر قلعہ میں آنے کا اذن عام دیا تھا تو دونوں جمعے صحیح ہوگئے ورنہ باہر کا جمعہ صحیح ہوا اور قلعہ کا باطل صاف ثابت ہوا کہ اذن عام فی نفسه شرط صحت جمعہ ہے اگر چہ جمعہ متعدد جگہ پایا جائے اور تقویت لازم نہ آئے
وليس بعد النص الا الرجوع اليه ۔
ترجمہ نص پائے جانے کے بعد اس کی طرف رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 403

READ MORE  جماعت جمعہ میں کم از کم کتنے آدمی ہونے چاہئیں؟
مزید پڑھیں:خلفائے راشدین کے دور میں جمعہ کی آذان ثانی کس جگہ ہوتی تھی؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top