:سوال
اسی غیر مقلد نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث ”اذا اضل احدكم شينا واراد وعون ۔۔۔” کے تحت لکھا ہے کہ عتبہ بن غزوان کے بارے میں تقریب میں لکھا ہے کہ یہ مجہول الحال میں ان کا تقوی اور عدالت معصوم نہیں۔۔۔
:جواب
آپ کا تقوی و عدالت تو معلوم ، کیسا طشت از بام ہے خدا کی شان کہاں عتبہ بن غزوان رقاشی کہ طبقه ثالثہ سے ہیں جنہیں تقریب میں مجبول الحال اور میزان میں لا یعرف کیا، اور کہاں اس حدیث کے راوی عتبہ بن غزوان بن جابر مازنی بدری کے سید عالم صلی اللہ تعایٰ علیہ وسلم کے صحابی جلیل القدر مہاجر و مجاہد غزوہ بدر میں جن کی جلالت شان بدر سے روشن ، مہر سے ابین رضی الله تعالى عنه وارضاه۔ مترجم صاحب دیباچہ ترجمہ میں معترف کہ حرزثمین ان کے پیش نظر ہے، شاید اس حرز میں یہ عبارت تو نہ ہوگی”ر وہ المطراني عن زيد بن علي عن عتبة بن غزوان رضى الله على انه عن المبین اسمی سینه های سید” ترجمہ اس کو طبرانی نے زید بن علی سے انہوں نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالی عنہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سے روایت کیا۔
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ صحابہ کرام سے منقول نہیں
یا جس تقریب کا آپ نے حوالہ دیا اس میں خاص برابر کی سطر میں یہ تحر یر تو نہ تھی ”عتبة بين غيروان بن جابر العربي صحابی خلیل مهاجر بدری مات سنه سبع عشرة اه ملخصا ” ترجمه عتبہ بن غزوان بن جابر المز نی صحابی جلیل بدری اور مہاجر ہیں جن کا وصال 17ھ میں ہوا۔ پھر کون سے ایمان کا مقتضی ہے کہ اپنے مذہب فاسد کی حما یت میں ایسے صحابی رفیع الشان عظیم المکان کو بزور زبان و بزور جنان درجہ صحابیت سے طبقہ ثالثہ میں لا ڈالے اور شمس عدالت و بدر جلالت کو معاذ اللہ مردو دالروایہ و مطعون جہالت بنانے کی بدراہ نکالئے” ولكن صدق بينا صلى الله تعالى عليه وسلم اذا لم تستحى فاصنع ما شئت ”ترجمہ لیکن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تجھے حیا نہیں تو پھر جو چاہے کر۔ مسلمان دیکھیں کہ حضرات منکرین انکار حق و اصرار باطل میں کیا کچھ کر گزرے پھر ادعائے حقانیت۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 590