:سوال
ایک غیر مقلد نے حصن حصین کا ترجمہ کیا ہے اور اس میں جب توسل والى حديث” اللهم انى اسئلك والتوجه اليك ۔ ۔ ”کے تحت لکھا ہے کہ اس حدیث میں ایک راوی عشمن بن خالد بن عمر متروک ہے اور متروک کی حدیث حجت کے قابل نہیں ہوتی ۔
:جواب
حضرات منکرین کی غایت دیانت سخت محل افسوس و عبرت ، اس حدیث جلیل کی عظمت رفیعہ و جلالت منیعہ اوپر معلوم ہو چکی اور اس میں ہم اہل سنت و جماعت کے لئے جواز استمداد والتجا ہنگام توسل، ندائے محبوبان خدا کا بحمد اللہ کیسا روشن و واضح و بین دلائح ثبوت ، جس سے اہل انکار کو کہیں مفر نہیں ۔۔۔ انا للہ وانا اليه راجعون ، انصاف و دیانت کا تو متقضی تھا کہ جب حق واضح ہو گیا تھا تسلیم فرماتے ارشاد مفترض الانقیاد حضور پرنورسید الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ الامجاد کی طرف رجوع لاتے نہ کہ خوابی نخواہی بز ور تحریف ایسی تصحیح رجیح حدیث کو، جس کی اس قدر رائمہ محد ثین نے یک زبان تصحیح فرمائی معاذ اللہ ساقط و مرد دو قرارد یجئے اور انتقام خدا و مطالبہ حضور سید روز جزا علیہ افضل الصلوۃ ولثناء کا کچھ خیال نہ کیجئے۔
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ کے بعد عراق کی جانب گیارہ قدم چلنا کیسا؟
اب حضرات منکرین کے تمام ذی علموں سے انصاف طلب کہ اس حدیث کا راوی عثمن بن خالد بن عمر بن عبد الله متروک الحدیث ہے جس سے ابن ماجہ کے سوا کتب ستہ میں کہیں روایت نہیں ملتی، یا عثمن بن عمر بن فارس عبدی بصری ثقہ جو صحیح بخاری و صحیح مسلم و غیر ہما تمام صحاح کے رجال سے ہیں، کاش اتنا ہی نظر فرما لیتے کہ جو حدیث کئی صحاح میں مردی، اس کا مدار روایت وہ شخص کیونکر ممکن جو ابن ماجہ کے سواکسی کے رجال سے نہیں ، وائے بیبا کی مشہور و متداول صحاح کی حدیث جن کے لاکھوں نسخے ہزاروں بلاد میں موجود ان کی اسانید میں صاف صاف عن عثمان بن عمر مکتوب، پھر کیا کہا جائے کہ ابن عمر کا ابن خالد بنا لینا کس درجہ کی حیاو دیانت ہے لا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 588