:سوال
بعض لوگ کہتے ہیں حدیث صحیح نہ ہونے سے مراد موضوع ہونا ہے؟
:جواب
امام ابن حجر عسقلانی القول المسررفی الذب عن مسند احمد فرماتے ہیں،
لایلزم من کون الحدیث يصح ان يكون موضوعا
یعنی حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔
ملاعلی قاری موضوعات میں فرماتے ہیں
لايلزم عن عدم الصحة وجود الوضع كما لا يخفى
یعنی کھلی ہوئی بات ہے کہ حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا
اسی (موضوعات) میں روز عاشورہ سرمہ لگانے کی حدیث پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ تعالی كا حكم لا يصح هذا الحدیث ” ( یہ حدیث صحیح نہیں ) نقل کر کے فرماتے ہیں
” قلت لا يلزم من عدم صحته ثبوت وضعه وغاينه انه ضعيف
یعنی میں کہتا ہوں اس کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں ، غایت یہ کہ ضعیف ہو۔ تنبیہ بحمد اللہ تعالی یہاں سے ان متکلمین طالقہ منکرین کا جہل شنیع وز ور قظیع ( فبیح دھو کہ ) بوضوع تام (مکمل وضاحت کے ساتھ ) طشت از بام ( ظاہر ) ہو گیا ، جو کلمات علم مثل المقاصد وغیر ہا سے احادیث تقبیل ابہامین (انگوٹھے چومنے کی احادیث ) کی نفی صحت نقل کر کے بے دھڑک دعوی کر دیتے ہیں کہ ان کے کلام سے بخوبی ثابت ہوا کہ جو احادیث انگوٹھے چومنے میں لائی جاتی ہیں سب موضوع ہیں اور یہ فعل ممنوع و غیر مشروع ہے۔
سبحان اللہ کہاں نفی صحت کہاں حکم وضع ، کیا مزہ کی بات ہے کہ جہاں درجات متعددہ ہوں وہاں سب میں اعلیٰ کی نفی سے سب میں سب میں ادنی کا ثبوت ہو جائیگا ، مثلا زید کو کہیے کہ بادشاہ نہیں تو اُس کے معنی یہ ٹھہریں کہ نان شبینہ کومحتاج ہے یا متکلمین طائفہ کو کہے کہ اولیا ہیں نہیں تو اس کا مطلب یہ قرار پائے کہ سب کا فرہيں ولكن الوهابية قوم يجهلون
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 441