:سوال
کیا منکر الحدیث اور متروک الحدیث کی حدیث بھی موضوع نہیں؟
:جواب
یوں ہی منکر الحدیث( کی حدیث بھی موضوع نہیں)
تعقبات میں ہے
قال البخاری منکر الحدیث فغایایت امر حدیثہ ان یکون ضعیفا
بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے تو زیادہ سے زیادہ اس کی حدیث ضعیف ہو گئی
ضعیفوں میں سب سے بدتر درجہ متروک کا ہے جس کے بعد صرف مہتم بالوضع یاکذاب دجال کا مرتبہ ہے اس پر بھی علماء نے تصریح فرمائی کہ متروک کی حدیث بھی صرف ضعیف ہی ہے موضوع نہیں
امام حجر اطراف العشرۃ پھر خاتم الحفاظ لآلی میں فرماتے ہیں
زعم ابن حبان وتبعه ابن الجوزى ان هذا المتن موضوع، وليس كما قال، فان الراوي وان کان مترو کا عدالاكثر ضعيفا عبد البعض، فلم بسب للوضع
ابن جبان نے یہ زعم کیا اور ابن جوزی نے ان کی اتباع میں کہا کہ یہ متن موضوع ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر چہ راوی اکثر کے نزدیک متروک اور بعض کے نزدیک ضعیف ہے لیکن وضع کی طرف منسوب نہیں ہے۔
حدیث چلہ صوفیہ کرام قدست اسرار ہم کہ من اخلص الله تعالى أربعين يوما ظهرت ينابيع الحكمة من قلبۃ على لسانه “
جس شخص نے چالیس ۴۰ دن اللہ تعالی کیلئے اخلاص کیا اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری ہو جائیں گے
ابن جوزی نے بطریق عدیدہ (بہت سارے طریقوں سے) روایت کر کے اس کے رواۃ میں کسی کے مجہول، کسی کے کثر الخطا ،کسی کے مجروح ،کسی کے متروک ہونے سے طعن کیا تعقبات میں سب کا جواب یہی فرمایا کہ
“مافيهم متھم بكذب
یہ سب کچھ سہی پھر ان میں کوئی مہتم بکذب تو نہیں کہ حدیث کو موضوع کہہ سکیں۔
سبحان اللہ!جب انتہا درجہ کی شدید جرحوں سے موضوعیت ثابت نہیں ہوتی ، تو صرف جہالت راوی یا انقطاع سند کے سبب موضوع کہہ دینا کیسی جہالت اور عدل و عقل سے انقطاع کی حالت ہے
ولكن الوهابية قوم يجهلون ( لیکن وہابیہ جاہل قوم ہے )۔
یہ ارشادات تو ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالی کے تھے۔ ایک قول وہابیہ کے امام شوکانی کا بھی لیجئے ، موضوعات ابوالفرج میں یہ حدیث کہ جب مسلمان کی عمر چالیس ۲۰ برس کی ہوتی ہے اللہ تعالی جنوں و جذام و برص کو اس سے پھیر دیتا ہے اور پچاس ۵۰ سال والے پر حساب میں نرمی اور ساٹھ 60 برس والے کو تو بہ و عبادت نصیب ہوتی ہے،
ہفتاد ( ستر ) 70 سالہ کو اللہ عز وجل اور اُس کے فرشتے دوست رکھتے ہیں، ای ۸۰ برس والے کی نیکیاں قبول اور برائیاں معاف نوے 90 برس والے کےسب اگلے پچھلے گناہ مغفور ہوتے ہیں، وہ زمین میں اللہ عزوجل کا قیدی کہلاتا ہے اور اپنے گھر والوں کا شفیع کیا جاتا ہے۔
بطریق عدیدہ روایت کر کے اُس کے راویوں طعن کئے کہ یوسف بن ابی ذرہ راوی مناکیر لیس بشیء ہے اور فرج ضعیف منکر الحدیث کہ واہی ( جو حقیقت میں حدیث نہ ہوان ) حدیثوں کو صیح سندوں سے ملا دیتا ہے اور محمد بن عا م حدیثوں کو پلٹ دیتا ہے ثقات سے وہ روایتیں کرتا ہے جو ان کی حدیث سے نہں اور عرزمی متروک اور عباد بن عباس مستحق ترک اور عزرہ کو یحیی بن معین نے ضعیف بتایا اور ابوالحسن کوفی مجہول اور عائز ضعیف ہے۔
شوکافی نے ان سب مطاعن کو نقل کر کے کہا
” هذا غایۃ ما بدي ابن الجوزي دليلا على ما حكم به من الوضع وقد افرط و جازف فليس . مثل هذه المقالات توجب الحكم بالوضع بل اقل احوال الحديث ان يكون حسنا لغیرہ
یعنی ا ن جوزی نے جو اس حدیث پر حکم وضع کیا اس کی دلیل میں انتہار بہ طعن پیدا کیے اور بے شک وہ حد سے بڑھے اور نیبا کی کو کام میں لائے کہ ایسے طعن حکم صنع کے موجب نہیں، بلکہ کم درجہ حال اس حدیث کا یہ ہے کہ حسن لغیرہ ہو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 455 تا 460