:سوال
ایک شخص امام مسجد ہے اور وہ فاتحہ وعلم غیب وغیرہ سے منکر ہے اور سجدہ میں اور رکوع میں تسبیح اس قدر زور سے کہتا ہے کہ اگلی صف والے بخوبی سن لیتے ہیں اور پیچھے والے بھی سن لیتے ہیں اور ایسے مقام پر کوئی دوسرا امام میسر نہیں آتا تو اس حالت میں کسی طرح با جماعت نماز پڑھی جائے کہ ثواب جماعت کا ہو اور نماز میں بھی کوئی نقص نہ ہونے پائے۔
:جواب
اگر علم غیب بعطائے الہی کثیر و وافر اشیاء وصفات و احکام و برزخ و معاد و اشراط ساعت ( علامت قیامت ) و گزشتہ وآئندہ کا منکر ہے تو صریح گمراہ بد دین و منکر قرآن عظیم و احادیث متواترہ ہے اور ان میں ہزاروں غیب وہ ہیں جن کا علم حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ملنا ضروریات دین سے ہے اور ضروریات دین کا منکر یقیناً کافر۔ یوں ہی تلسبیسی طور پر ( فریب دیتے ہوئے) بعض کا اقرار کرتا اور وہابیہ کا اعتقاد رکھتا ہے تو گمراہ بددین ہے اور جو خاص دیو بندی عقائد پر ہو وہ کافر و مرتد ہے، یوں ہی جو ان عقائد پر اپنا ہونا نہ بتائے مگر ان لوگوں کے عقائد کفریہ پر مطلع ہو کر ان کو اچھا جانے یا مسلمان ہی سمجھے جب بھی خود مسلمان نہیں۔
ہاں اگر تمام خباشتوں سے پاک ہوا اور علم غیب کثیر و وافر بقدر مذکور پر ایمان رکھے اور عظمت کے ساتھ اس کا اقرار کرے پر صرف احاطه جميع ما کان و ما یکون میں کلام کرے اور ان میں ادب و حرمت ملحوظ رکھے تو گمراہ نہیں صرف خطا پر ہے مگر آج کل یہاں فاتحہ کا انکار خاص وہابیہ ہی کا شعار ہے اور وہابیہ اہل ہو اسے ہیں اور اہل ہوا کے پیچھے نماز نا جائز ہے۔ تو اگر امام میسر ہو بہتر ۔ رہے ورنہ تنہا نماز پڑھی جائے۔ ہاں اگر وہاں وہابیہ و با بیت نہ ہوتی تو فقط اتنی بات پر کہ تسبیحات رکوع وجود بآ واز کہتا اور اس پر اصرار رکھتا ہو نماز اس کے پیچھے مکروہ ہوتی کہ اگر اور امام نہ ملتا تو اس کے پیچھے پڑھنے کا حکم دیا جا تا مگر بحال وہابیت ہرگز اقتداء جائز نہ ہوگی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 541