:سوال
بد مذہب لوگ عید کے بعد جو دعامانگنے سے منع کرتے ہیں وہ عبدالحئ ہندی لکھنوی کے اس فتوی کو دلیل بناتے ہیں، ان سے سوال ہوا جناب رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام اور اصحاب و تابعین و تبع تابعین و ائمہ اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بعد نماز عیدین کے دعا مانگتے تھے یا بعد پڑھنے خطبہ عیدین کے کھڑے کھڑے یا بیٹھ کر یا بدون ہاتھ اٹھائے؟ بینوا و افتوا بسند الكتاب کتاب کی سند – ل سند کے ساتھ بیان کرو اور فتوی دو ) تو جواب دیا کہ ھو المصوب وایات حدیث سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز عید سے فراغت کر کے خطبہ پڑھتے تھے اور بعد اس کے معاودت فرماتے (واپس تشریف لے آتے)، دعا مانگنابعد نماز یا خطبہ کے آپ سے ثابت نہیں، اسی طرح صحابہ کرام و تابعین عظام سے ثبوت اس امر کا نظر سے نہیں گزرا۔
:جواب
قطع نظر اس سے محل احتجاج میں کہاں تک پیش ہو سکتا ہے حضرات مانعین کو ہرگز مفید ، نہ ہمیں مضر، جواز وعدم کا تو اس میں ذکر ہی نہیں ، سائل و مجیب دونوں کا کلام ورود و عدم ورود میں ہے پھر مجیب نے صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ تعالی عنہم سے ثابت نہ ہونے پر جزم بھی نہ کیا، صرف اپنی نظر سے نہ گزرنا لکھا اور ہر عاقل جانتا ہے کہ نہیں اور نہ دیکھا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ ان کے جو اکا بر ماہران فن حدیث ہیں بارہا فرماتے ہیں ہم نے نہ دیکھی اور دوسرے محدثین اس کا پتا دیتے ہیں
فقیر نے اس کی متعدد مثالیں اپنے رسالہ صفائح اللحين في كون التصافح بكفى الیدين میں ذکر کیں۔ پھر یہ نہ دیکھنا بھی مجیب ، خاص اپنا بیان کر رہے ہیں نہ کہ ائمہ شان نے اس طرح کی تصریح فرمائی کہ ایسا ہوتا تو نظر سے نہ گزرا کے عوض اس امام کا ارشاد نقل کرتے ، خصوصا جبکہ سائل درخواست کر چکا تھا کہ بینوا و افتو ایسند الکتاب کتاب کی سند کے ساتھ بیان کرو اور فتوی دو)۔
تو آج کل کے ہندی علماء کا نہ دیکھنا نہ ہونے کی دلیل کیونکر ہو سکتا ہے آخر نہ دیکھا کہ فقیر غفر لہ المولی القدیر نےحدیث صحیح سے اس کا نص صریح، ائمہ تابعین قدمت اسرار ہم سے واضح کر دیا والحمد لله رب العلمین ۔
پھر خصوص جزئیہ سے قطع نظر کیجئے ، جس کا التزام عقلاً ونقلا کسی طرح ضرور نہیں جب تو فقیر نے خود حضور پرتور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جس جس طرح اس کا ثبوت روشن کیا منصف غیر متصرف اس کی قدر جانے گا والحمد للہ والمیہ ۔
پھر سوال میں تبع تابعین وائمہ اربعہ سے استفسار تھا مجیب نے ان کی نسبت اس قدر بھی نہ لکھا کہ نظر سے نہ گزرا، اب خواہ ان سے ثبوت نہ دیکھا یا پوری بات کا جواب نہ ہوا، بہر حال محل نظر و اسناد مستند صرف اس قدر کہ مجیب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے نفی ثبوت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:عید کے پہلے خطبہ کے بعد تکبیر اور درود کہنا کیسا؟
پھر امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اس پر دو صورتوں میں کلام کیا، صورت اول یہ ہے کہ اس کلام سے یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ عالی علیہ وسلم سے ثابت نہیں غلط ہے اور دوسری صورت یہ کہ اگر یہ تسلیم کرلیں کہ حضورصلی اللہ عالی علیہ وسلم سے ثابت نہیں تب بھی ممانعت کا حکم نہیں ہو سکتا، پہلی صورت پر متعدد وجوہ سے کلام فرمایا، چنانچہ فرماتے ہیں
اولاً
یہ تو اصلاً کسی حدیث میں نہیں کہ حضور پر نور سید عالم حضور صلی اللہ عالی علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بفور حقیقی معا خطبہ فرماتے تھے اور خطبہ ختم فرماتے ہی بے فصل فورا واپس تشریف لاتے ، غایت یہ کہ کسی حدیث میں فائے تعقیب آنے سے استدلال کیا جائے گا مگر وہ ہرگز اتصال حقیقی پر دال نہیں کہ دو حرف دعا سے فصل کی مانع ہو۔۔۔ اگر زید وعدہ کرلے نماز پڑھ کر فوراً آتا ہوں تو نماز کے بعد معمولی دو حرفی دعا ہر گز عرفا یا شرعا مبطل فور و موجب خلاف وعدہ نہ ہوگی ، مسئلہ سجود تلاوت صلاتیہ میں سناہی ہو گا کہ دو آیتیں بالاتفاق اور تین علی الاختلاف قاطع فور نہیں۔
ثانيا
دعا تابع ہے اور توابع فاصل نہیں ہوتے ، واجبات میں ضم سورت سنا ہوگا مگر آمین فاصل نہیں کہ تابع فاتحہ ہے۔ حضور پرنورسید یوم النشور حضور صلی اللہ عالی علیہ وسلم نےتسبیح حضرت بتول زہر اصلوات اللہ وسلامہ کی نسبت فر مایا معقبات لا يخيب قائلین)کچھ کلمات نماز کے بعد بلا فاصلہ کہنے کے ہیں جن کا کہنے والا نا مراد نہیں رہتا۔
(سن انسانی ،ج 1ص 198 نور محمد کارخانه تجارت کتب کراچی)
مزید پڑھیں:نماز عیدین کے بعد دُعا مانگنا کہاں سے ثابت ہے؟
با اینہمہ (اس کے باوجود ) علماء فرماتے ہیں اگر سنن بعد یہ کے بعد پڑھے تعقیب میں فرق نہ آئے گا کہ سنن توابع فرائض سے ہیں۔
ثالثا
مانا کہ مفاد فا اتصال حقیقی ہے تا ہم خوب متنبہ رہنا چاہئے کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ سلم نےنو بر س عید کی نمازیں پڑھی ہیں تو احادیث متعددہ کا وقائع متعدہ پر محمول ہونا ممکن، پس اگر ایک حدیث صلوۃ و خطبہ اور دوسری خطبہ وانصراف میں وقوع اتصال پر دلالت کرے اصلا بکار آمد نہیں کہ ایک بار بعد خطبہ، دوبارہ بعد نماز دعا کا عدم ثابت نہ ہوگا، تو (یوں وہ) مقصود سے منزلوں دور ہے۔
رابعاً
مسلم کہ ایک ہی حدیث میں دونوں اتصال مصرح ہوں تاہم بلفظ دوام تو اصلاً کوئی حدیث نہ آئی ومن ادعی فعلیہ البیان ( اور جو اس کا دعوی کرتا ہے وہ دلیل لائے )۔
اور ایک آدھ جگہ صلی فخطب فعاد ( نماز پڑھائی، پس خطبہ دیا اور ٹوٹ گئے ۔ ) ہو بھی تو واقعہ حال ہے اور وقائع حال کے لئے عموم نہیں کما نصوا علیہ ( جیسا کہ علماء نے اس پر تصریح کی ہے )۔
خامسا
یہ سب تو بالائی کلام تھا احادیث پر نظر کیجئے تو وہ اور ہی کچھ اظہار فرماتی ہیں صحاح ستہ و غیر با خصوصا صحیحین میں روایات کثیرہ بلفظ ثم وارد ، ثم فاصلہ و مہلت چاہتا ہے تو ادعا کہ احادیث میں اتصال ہی آیا محض غلط بلکہ حرف اتصال اگر دو ایک حدیث میں ہے تو کلمہ انفصال آٹھ دس میں ۔ پھر امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے صحاح ستہ سے نو (۹) احادیث نقل فرمائیں جس میں تم استعمال ہوا ہے، جس میں سے ایک یہ ہے ) راوی فرماتے ہیں
( قال خرجت مع النبي صلى الله تعالى عليه وسلم يوم فطر او اضحى فصلى ثم خطب ثم أتى النساء فوعظهن وذكر هن وامرهن بالصدقة)
) ترجمہ: میں فطر اور اضح کے روز نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ نکلا آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا پھر خواتین کے اجتماع میں تشریف لے گئے انہیں وعظ
و نصیحت فرمائی اور انہیں صدقہ کا حکم دیا۔
(صحیح البخاری ، ج 1 ص 133 ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
یہ حدیث دونوں جگہ فصل کا اظہار کرتی ہے کہ اللہ پھر کیونکر دعا کر سکتے ہیں کہ نماز وخطبہ اور خطبہ ومعاودت میں ایسا اتصال رہا جو عدم دعا پر دلیل ہوا۔
پھر امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے دوسری صورت پر کلام فرمایا ) اب محمل دوم کی طرف چلئے جس کا یہ حاصل کہ حدیثوں میں صرف نماز و خطبہ کا ذکر ہے ان کے بعد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دعا مانگنامذکور نہ ہوا۔
مزید پڑھیں:نماز عیدین پختہ چھت دار مسجد میں پڑھنا کیسا؟
اقول
یہ حضرات مانعین کے لئے نام کو بھی مفید نہیں، سائل نے اس فعل خاص بخصوصیت خاص کا سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے صدور پوچھا تھا کہ کسی طور پر ہوا، اس کا طور پر ہوا، اس کا جواب یہی تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم سے اس فعل خاص کی نقل جزئی نظر سے نہ گزری مگر اسے عدم جواز کا فتوی جان لینا محض جہالت بے مزہ۔
اولا
پچھلے جواب میں گزرا کہ حدیث ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے عموم میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اس دعا کا ثبوت فعلی بتارہی ہے۔
ثانياً
ثبوت فعلی نہ ہو تو قولی کیا کم ہے بلکہ من وجہ قول فعل سے اعلیٰ واتم ہے۔ اب ( پچھلی ) تقریریں پھر یاد کیجئے اور حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا تو بعد نماز عید خود رب مجید جل وعلا کا اپنے بندوں سے تقاضائے دعا فر مانا بتا رہی ہے، اس کے بعد اور کسی ثبوت کی حاجت کیا ہے۔
ثالثا
جب شرع مطہر سے حکم مطلق معلوم کہ جواز و استحباب ہے تو ہر فرد کے لئے جدا گانہ ثبوت قولی یا فعلی کی اصلاً حاجت نہیں کہ با جماع و اطباق عقل و نقل حکم مطلق اپنی تمام خصوصیات میں جاری وساری اطلاق حکم کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس ما ہیت کلیه یا فرد منتشر کا جہاں وجود ہو حکم کا ورود ہو۔ جب تک کسی خاص کا استثناء شرع مطہر سے ثابت نہ ہو۔ (اس کا امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے دس وجوہ سے جواب دیا، تین اوپر گزریں، اور آخر میں فرماتے ہیں کہ جس عالم کا فتوی تم دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہو وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ ممانعت اسی صورت میں ہے جب کسی کام سے منع کیا گیا ہو اس کے ثبوت میں امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے عبدالحی لکھنوی کے فتاوی سے کئی مثالیں دیں ، ان میں سے دو عبارتیں یہ ہیں، عبدالحی لکھنوی کے مجموعہ فتاوی میں ہے: ) اگر میں تسلیم کرلوں کہ ذکر مولد تین زمانوں میں سے کسی میں نہیں اور مجتہدین سے اس کا حکم منقول نہیں ہے لیکن شرع میں جب یہ بنیادی قاعدہ ہے کہ ہر وہ اقاعدہ ہے کہ ہر وہ فرد جس سے علم کی اشاعت ہو وہ مندوب ہوتا ہے تو ذکر مولد بھی اسی میں شامل ہے توضروری ہے اسے بھی مندوب کہا جائے۔
مجموعه فتاوی ، ج 2 ص 113 مطبع یوسفی فرنگی محنی لکھنو
ایک اور عبارت الوداع یا الفراق کا خطبہ آخر رمضان میں پڑھنا اور کلمات حسرت و رخصت کے ادا کر نافی نفسہ امر مباح ہے بلکہ اگر یہ کلمات باعث ندامت و تو بہ سامعان ہوئے تو امید ثواب ہے مگر اس طریقہ کا ثبوت قرونِ ثلثہ میں نہیں
( مجموعہ فتاوی ، ج 2، ص 24 مطیع یوسفی فرنگی محلی لکھنو)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 539 تا 558