:سوال
ایک جگہ پہاڑ میں ایسی ہے جہاں بہت وقت (مشکل) سے اونچی چوٹیوں پر جا کر ہی چاند دیکھا جا سکتا ہے اور چوٹیوں پر جا کر بھی اکثر بسبب ابر (بادل) کے چاند نہیں دکھائی دیتا ہے، ایسی جگہ میں مسلمانوں کو شوال کی رؤیت ہلال کی اطلاع بذریعہ تار کے پاکے روزہ افطار کر دینا اور عید کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ تارا گر ایک ہؤ دو ہوں یا دس ہوں، کسی صورت میں ان پر اعتبار جائز ہے یا نہیں؟ اگر خبر بذریعہ تارکی نہ مانی جائے تو پہاڑوں میں کبھی رمضان کا مہینہ انتیس کو نہیں ختم ہو سکتا ہے۔
:جواب
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
(صوموا لرؤيته وافطر والرؤيته)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزه رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
(صحیح بخاری ، ج 1 میں 256 قدیمی کتب خانہ، کراچی)
تا را گر چہ دس ہوں اصلاً شرعا امور دینیہ میں قابل التفات نہیں کہ اس کی حالت خط سے بھی بدتر ہے ( اس پر دینے کے بعد ارشاد فرمایا: ) رہا یہ کہ اس صورت میں کہ انتیس کا چاند ہی وہاں نہ ہوگا ، شعبان سے ذی الحجہ تک پانچ ہلالوں کا بغور دیکھنا تلاش کرنا ہر جگہ کے مسلمانوں پر واجب ہے، اونچی چوٹیوں پر جانے کی وقت اگر صرف بوجہ تکلیف یا کاہلی ہو تو یہ عذر ہر گز نہ سُنا جائے گا، اور اوپر جا کر دیکھنا واجب ہوگا ۔ اگر کوئی نہ جائے گا سب گنہ گار رہیں گے اور اگر واقعی نا قابل برداشت تکلیف ہے تو معاف ہے۔
(فان غم عليكم فأكملو العدة ثلثين)
ترجمہ: چاند تم پر پوشیدہ رہے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔
مسلمانوں کو حکم سے غرض ہے 29,30 سے کیا کام! اور اگر یہ خیال ہے کہ 29 کے رمضان کی خوشی زیادہ ہوتی ہے، یہ کیونکر ہوگی تو یہ محض بے معنی خیال ہے، اور غور کریں تو اُس کی کسر ادھر شعبان میں نکل جائیگی کہ وہ بھی کبھی 29 کانہ ہوگا، تو رمضان کہ 30 کا چاند وہاں 29 کو نظر آئے گا۔ اہتمام کریں تو 29 تاریخ نزدیک کی آبادیوں میں دو چار معتبر مسلمان بھیج کر پہاڑ سے باہر بھی رؤیت کر سکتے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 368