:سوال
ایک بستی میں مسلمانان ہم قوم ہم مذہب قریب دو اڑھائی سو گھر کے رہتے ہیں اور ایک مسجد پختہ عرصہ دس بارہ برس سے ہے، کچھ عرصہ ہوا دو مسلمان رئیس میں جو اس بستی کے رہنے والے ہیں کسی دنیاوی جھگڑے کی وجہ سے چالیس پچاس گھر کے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر اپنی مسجد بناڈالی، پہلی مسجد اور اس مسجد کے درمیان دو سو قدم کا فاصلہ ہے، اس نئی مسجد میں نماز پنج وقتی ادا ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ اور جو نمازیں ادا کی ہیں وہ ہوئی یا نہیں؟ جن لوگوں نے نئی مسجد بنائی ہے ان کے لئے کیا حکم ہے؟ کیا ان لوگوں کو جماعت میں پھوٹ ڈالنے والا کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
:جواب
جتنی نمازیں ان لوگوں نے اس نئی مسجد میں پڑھیں ان کی صحت اور ان سے ادائے فرض میں تو اصلا شبہ نہیں اگر چہ یہ مسجد انھوں نے کسی نیت سے بنائی ہو، لقول رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ((جعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فايما رجل من امتى ادركته الصلوة فليصل )) ترجمہ: کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعلی علیہ وسلم نے فرمایا : میری خاطر ساری زمین اورمسجد پاک کر دی گئی ہے، میرا امتی جہاں نماز کا وقت پائے وہاں ہی ادا کر لے
(ابخاری ج1، ص 62،قدیمی کتب خانہ کراچی)
ہاں یہ کہ وہ مسجد شرعاً مسجد ہوئی یا نہیں، اور اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں اور یہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے ہوئے یا نہیں ۔ یہ امور اُن لوگوں کی نیت پر موقوف ہیں، اگر یہ مسجد انھوں نے بغرض نماز خالص اللہ عزوجل ہی کے لئے بنائی اگر چہ اس پر باعث باہمی رنجش ہوئی کہ بسبب رنج ایک جگہ جمع ہونا مناسب نہ جانا اور نماز بے مسجد ادا کرنی نہ چاہی، لہذا یہ مسجد بہ نیت بجا آوری نماز ہی بنائی تو اس کے مسجد ہونے اور اس میں نماز جائز وثواب ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
مزید پڑھیں:مسجد صغیر و کبیر میں کیا فرق ہے؟
اس نیت کی حالت میں یہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے بھی نہیں ٹھہر سکتے کہ اُن کا مقصود اپنی نماز با جماعت ادا کرنا ہے، نہ دوسروں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنا، یہاں تک کہ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اہل محلہ کو جائز ہے کہ بغرض نماز ایک مسجد کی دو مسجد یں کر لیں۔ اور اگر یہ نیت نہ تھی مسجد اللہ کے لئے نہ بنائی بلکہ اس سے مقصود اگلی مسجد کو ضر پہنچانا اور اس کی جماعت کا متفرق کر دینا تھا تو بیشک یہ مسجد نہ ہوئی، نہ اس میں نماز کی اجازت بلکہ نہ اس کے قائم رکھنے کی اجازت، اور اس صورت میں یہ لوگ ضرور تفریق جماعت مومنین کے وبال میں مبتلا ہوئے کہ حرام قطعی و گناہ عظیم ہے۔ مگر نیت امر باطن ہے اور مسلمان پر بد گمانی حرام و کبیرہ، اور ہرگز مسلمان سے متوقع نہیں کہ اس نے ایسی فاسد ملعون نیت سے مسجد بنائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا تقف ماليس لك به علم ان السمع والبصر والفؤاد كل اولئک كان عنه مسئولا ) ترجمہ: نہ پیچھے لگ اس چیز کے جس کا تجھے علم نہیں کیونکہ سمع، بصر اور دل ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
پ 15 ، سورۃ بنی اسرائیل، آیت (36)
تو بے ثبوت کافی شرعی ہرگز اس برُی نیت کا گمان کرنا جائز نہیں بلکہ اس پہلی نیت پر محمول کریں گے اور مسجد کو مسجد اور اس میں نماز کو جائز ثواب اور اس کی آبادی کو بھی ضرور سمجھیں گے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 78